ایٹمی میدان میں امتیاز قبول نہیں کرسکتے،جنرل مشرف ، بہتر تعلقات اور خوشگوار بین الاقوامی ماحول سے ہی مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل تلاش کیا جاسکتا ہے ، جب تک مسلمان غیرملکی تسلط اور ظلم و تشدد کا شکار ہیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو رضا کار ملتے رہیں گے،اہم شخصیات نازک موقع پر مسلمانوں کے حساس جذبات سے کھیل رہی ہیں ،وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کا تمام ہمساؤں سے تنازعہ ختم کرایا جائے اور فلسطین کا المیہ انجام کو پہنچے،جنرل اسمبلی سے خطاب

منگل 19 ستمبر 2006 21:54

ایٹمی میدان میں امتیاز قبول نہیں کرسکتے،جنرل مشرف ، بہتر تعلقات اور ..
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19ستمبر۔2006ء) صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ایٹمی توانائی پاکستان کی پھیلتی ہوئی معیشت کی بنیادی ضرورت ہے،ایٹمی میدان میں امتیاز قبول نہیں کرسکتے ۔منموہن سے ملاقات نتیجے میں مسئلہ کشمیر سمیت تنازعات کے حل کی راہ ہموار ہو گی جو کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ ہے،بہتر تعلقات اور خوشگوار بین الاقوامی ماحول سے ہی مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔

ہم ہتھیاروں کی دوڑ نہیں چاہتے لیکن کم از کم قابل اعتماد دفاعی عسکری صلاحیت کیلئے سب کچھ کریں گے ۔افغانستان کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے مشترکہ چیلنج سے نمٹنا پاکستان،افغانستان اور اتحادی فورسز کی مشترکہ ذمہ داری ہے،افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے سنجیدہ بین الاقوامی کمٹمنٹ ضروری ہے،جب تک مسلمان غیرملکی تسلط اور ظلم و تشدد کا شکار ہیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو رضا کار ملتے رہیں گے ۔

(جاری ہے)

مسلمانوں کے خلاف نسلی و مذہبی امتیاز اوراسلام کی توہین بند کی جائے ۔اہم شخصیات نازک موقع پر مسلمانوں کے حساس جذبات سے کھیل رہی ہیں ۔وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کا تمام ہمساؤں سے تنازعہ ختم کرایا جائے اور فلسطین کا المیہ انجام کو پہنچے ۔ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کے علاقائی اور عالمی سطح پر بدترین نتائج نکلیں گے ۔اقوام متحدہ جب تک عام رکن ممالک کی ترجیحات کاتحفظ نہیں کرتی اس کی ساکھ خطرے میں ہے ۔

منگل کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 61ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان نے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ بحرین سے ہماری ایک بہن جنرل اسمبلی کے اس اہم اجلاس کی صدارت کررہی ہے ۔اس منصب کے لیے آپ کا انتخاب اس امر کاآئینہ دار ہے کہ خواتین اسلامی دنیا میں اہم کردارادا کررہی ہیں اور اس کردار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں تباہ کن زلزلے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ میں اس بڑے ادارے سے خطاب کررہا ہوں۔

اس لیے میں دنیا بھر سے دی جانے والی مالی امداد اور ریلیف پردل سے شکریہ اداضروری سمجھتا ہوں۔ ضرورت اور مصیبت کے وقت میں عالمی سطح پر یکجہتی ہمارے لیے سہارا بنی ۔انہوں نے کہاکہ اکیسویں صدی کے موجودہ اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں خصوصاً،سیاسی تنازعات دہشت گردی،ایٹمی پھیلاؤ غربت بھوک،بیماری،اقتصادی ناہمواری،نقل مکانی،بے روزگاری،ماحولیات میں خرابی اور قدرتی آفات کا مقابلہ کثیر ملکی تعاون سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔

ہم ان چیلنجوں کے مقابلے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اقدامات کو سراہتے ہیں لیکن ہم اب بھی 2005ء میں اقوام متحدہ کے سربراہ اجلاس کے منظور کردہ وژن سے بہت دور ہیں۔گزشتہ چھ سالوں میں اندرونی و بیرونی چیلنجوں کے باوجود پاکستان تیزی سے ایک فعال ملک کی حیثیت سے اپنے بانیان کے نظریے کے مطابق ایک جدید،ترقی پسند،اسلامی اور جمہوری مملکت کی حیثیت میں ابھر رہا ہے ہم نے حکومتی اور معاشی اداروں میں اصلاحات کی ہیں نچلی سطح پر جمہوری نظم و نسق متعارف کرایا گیا ہے ہم اپنے معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں،غریب خواتین اور اقلیتوں کی بہتری پر توجہ دے رہے ہیں خواتین کو سیاسی اور معاشی طورپر بااختیار بنایا جارہا ہے اور انہیں ہر قسم کے امتیازات سے تحفظ فراہم کیا جارہا ہے ۔

اقلیتوں کو سیاسی دھارے میں لایا گیا ہے اور ہم نے میڈیا کو ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد کیا ہے ۔معاشی سطح پر کامیابیوں کے بعد ہم اب ترقی کے ثمرات تمام لوگوں تک پہنچانے کے لیے سیکنڈ جنریشن ریفارمز پر توجہ دے رہے ہیں ۔پاکستان کی منفرد جیو سٹریٹجک پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے ہم جنوبی ایشیاء،مغربی ایشیاء و سطی ایشیاء اور چین کے ساتھ ملکر تجارتی توانائی اور مواصلاتی کوریڈورکے قیام کی طرف پیش رفت کررہے ہیں ۔

علاقائی استحکام سے اقتصادی ترقی اور ایشیاء اور اس کے نواحی علاقوں کے لوگوں کے استحکام کی رفتار تیز ہو گی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اندرونی اور بیر ونی سطح پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے ہم خطے میں امن واستحکام کا ماحول پیدا کرنے کے لیے جرات مندی سے ان چیلنجوں کا سامنا کررہے ہیں پاکستان خطے میں پرامن ماحول چاہتا ہے ۔ہم اعتماد کی بحالی اور جموں کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے بھارت کے ساتھ ملکرامن کا عمل آگے بڑھا رہے ہیں کیونکہ مسئلہ کشمیر خطے میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ ہے اورماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان تمام تنازعات کی جڑ بنا ہے ۔

بہتر تعلقات اور خوشگوار بین الاقوامی ماحول سے ہی اس دیرینہ تنازعے کا قابل قبول حل تلاش کیا جاسکتا ہے مجھے اعتماد ہے کہ ہوانا میں وزیراعظم من موہن سنگھ سے ہونے والی میری مثبت ملاقات امن کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد دے گی ۔جو نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ جنوبی ایشیاء اور دنیا بھر میں امن کے مفاد میں ہے جنرل پرویز مشرف نے کہاکہ ہمارے خطے میں امن کے لیے مستحکم سیکورٹی ماحول بھی ضروری ہے پاکستان نے اس مقصد کے لیے جنوبی ایشیاء میں سٹریٹجک ریسٹرینٹ رجیم(فوجی تحمل کے سمجھوتے)کی تجویز پیش کی ہے جو کم از کم نیوکلیئر ڈٹرنس( عسکری صلاحیت) اور روایتی فورسز کے توازن پر مشتمل ہو۔

ہم ہتھیاروں کی دوڑ میں شریک نہیں ہونا چاہتے لیکن ہم وہ سب کچھ کریں گے جو کم ازکم قابل اعتماد دفاعی عسکری صلاحیت کے تحفظ کیلئے ضروری ہو گا ۔انہوں نے کہاکہ بڑھتی ہوئی معیشت کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نیوکلیئر پاور جنریشن پاکستان کی جائز ضرورت ہے ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہونے کے ناطے ہم آئی اے ای اے کے سیف گارڈز کے تحت بجلی حاصل کرنے کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی طلب کرتے رہیں گے۔

ہم ایٹمی میدان میں امتیازی سلوک قبول نہیں کرسکتے ۔صدر پاکستان نے کہاکہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے ۔جس سے ہماری مغربی سرحدوں پر بہتری یقینی ہو گی اور پاکستان وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کو افغانستان کے ذریعے ملانے کے خواب کو حقیقت بنا سکے گا افغانستان کو پیچیدہ سیکورٹی ضروریات،سیاسی و اقتصادی چیلنجوں اور ابھرتے ہوئے طالبان کا سامنا ہے جو پاکستان کے انتہا پسندی اوردہشت گردی کے خلاف اقدامات کے لیے بھی خطرہ ہیں مشترکہ چیلنج کامقابلہ پاکستان،افغانستان اور اتحادی فوجیوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں بہت سے مسائل درپیش ہیں کیونکہ 30لاکھ افغان مہاجرین آج بھی ہمارے ہاں مقیم ہیں جن میں سے بعض ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہوسکتی ہیں ۔بین الاقوامی برادری کی طرف سے رضا کارانہ واپسی کیلئے مہاجرین کو دی گئی مراعات بہت کم ہیں ۔ان کی واپسی میں سہولت کیلئے سنجیدہ بین الاقوامی کمٹمنٹ ضروری ہے ۔

صدر نے کہاکہ ہمارے خطے کی افسوسناک تاریخ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی فرنٹ لائن میں کھڑا کردیا ہے ہم روزانہ امریکہ اور برطانیہ سمیت بہت سے ملکوں سے تعاون کرتے ہیں ہمارے تعاون کے نتیجے میں دہشت گردی کے کئی منصوبے ناکام ہوئے جن میں حال ہی میں لندن میں جہازوں کو تباہ کرنے کامنصوبہ شامل ہے۔گزشتہ پانچ سالوں کے دوران القاعدہ بہت نیچے چل گئی ہے ۔

چونکہ ہم دہشت گردی کا سامنا کررہے ہیں اس لیے ہماری حکمت عملی جامع ہونی چاہیے اور ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہم دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو نہ سمجھیں اور ان پر توجہ نہ دیں آخردہشت گردت ترقی پسند اور جمہوری معاشروں میں اپنے حمایتی کس طرح تلاش کرلیتے ہیں ؟ حتی کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں ۔اس کی وجوہات ہمارے سامنے ہیں۔

عالم اسلام میں دیرینہ تنازعات اور نئی فوجی مداخلت کی مہمات سے پسماندی اور ناانصافی کا احساس پیدا ہوتا ہے ہر نیا جنگی میدان اسلامی ریاست ہوتی ہے اس سے دہشت گردوں اورانتہا پسندوں کو اپنے بیج بونے کے لیے زمین مل جاتی ہے مسلسل بمباری،شہریوں کی ہلاکتیں،ٹارچرڈ انسانی حقوق کی پامالی،نسلی امتیاز اور دیگر امتیازات دہشت گردی کو شکست دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

میرے خیال میں دونکاتی حکمت عملی اپنانی چاہیے جسے میں روشن خیال اعتدال پسندی کہتا ہوں اور یہ موجودہ صورتحال کا تقاضاہے۔ اس حکمت عملی میں جہاں دہشت گردی کا سامنے سے مقابلہ کیا جائے وہاں بین الاقوامی برادری اسلامی دنیا کو درپیش تنازعات کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے ۔جب تک مسلمانوں پر غیر ملکی تسلط اور ظلم و تشدد بند نہیں ہوتا دہشت گردی اور انتہا پسندی کو دنیا کے مختلف حصوں میں پسے ہوئے مسلمانوں میں سے رضا کار ملتے رہیں گے ۔

اس کے ساتھ ساتھ صدر مشرف نے کہاکہ مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے اسلامی اور مغربی دنیاؤں کے درمیان بڑھتی ہوئی خیلج کو کم کرنے کی ضرورت ہے خاص طورپر مسلمانوں کے خلاف نسلی اور مذہبی امتیازات ختم ہونے چاہئیں اور اسلام کی توہین بند کی جائے ۔یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ اعلیٰ شخصیات ان اہم لمحات میں مسلمانوں کے حساس جذبات سے کھیلتی ہیں ۔

عالمی سلامتی،دہشت گردی کے خلاف جنگ،تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ اور اقوام متحدہ کی ساکھ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج اس وقت مشرق وسطیٰ کا سلگتا ہوا تنازعہ ہے ۔جس پر لبنان کے خلاف حالیہ جارحیت میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ہمیں امید ہے کہ سلامتی کونسل کے ذریعے پیش کیے گئے حل سے لبنان کی اپنے پورے علاقے پرسالمیت بحال اور اسرائیل کا تیزی سے انخلاء ہو گا۔

لبنان پرحملے نے مشرق وسطی کیلئے دوررس پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں خطے میں منصفانہ امن اعتدال پسند قوتوں کی قابلیت کا امتحان ہے ۔تاہم دنیاؤں خطے کے مسائل جامع انداز میں منصفانہ طورپر حمایت جاری رکھے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کا تمام ہمسایوں سے جھگڑے ختم کرائے جائیں اور وقت آ چکا ہے کہ فلسطین کاالمیہ اپنے انجام کو پہنچے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب سے بڑا چیلنج ہے جو نہ صرف عراق اور افغانستان کے مسائل کم کرے گا بلکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت سے نمٹنے کیلئے مدد گار ثابت ہو گا ۔

انہوں نے کہاکہ پہلے سے سلگتے ہوئے اس خطے میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر شروع ہونے والے تنازعے سے خطے میں مزید عدم استحکام کا خدشہ ہے ایران اور چھ ممالک کے درمیان مذاکرات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صدرنے کہاکہ میں یقین ہے کہ یہ مسئلہ پرامن طور پرحل ہوسکتا ہے جس کے تحت تمام فریقوں کے بنیادی جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ ہو سکے اس کے مقابلے میں دباؤ اور طاقت کا استعمال بدترین نتائج کاحامل ہو گا اور اس سے عالمی اور علاقائی سطح پر صورتحال خراب ہو گی ۔

انھوں نے کہاکہ متعدد ترقی پذیر ملکوں خصوصاً ایشیاء میں ملکوں نے فعال اقتصادی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اوردنیا کی معاشی نقشے پر ابھرے ہیں تاہم بہت سے ترقی پذیر ممالک سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی،مالیاتی اور تجارتی ڈھانچے اور اصول ان کے خلاف جاتے ہیں ۔دوحہ میں ہونے والے مذاکرات پر پیش رفت نہ ہونے کے بعد ضرورت اس امرکی ہے کہ نئے ضابطے تلاش کیے جائیں تاکہ تجارت بڑھانے کے مواقع سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے اسی طرح بین الاقوامی مالیاتی نظام کو اس طرح مساوی بنایا جائے کہ ترقی پذیر ممالک بین الاقوامی سرمایہ کاری اور دولت سے اپنا حصہ وصول کرسکے انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ اگر عام ارکان کی ترجیحات کا تحفظ نہیں کرسکتی تو اس سے عالمی سطح پر اس کی اخلاقی حیثیت کو دھچکا پہنچے گا جنرل اسمبلی اپنی ذمہ داریوں کے چارٹر کا جائزہ لے اور سلامتی کونسل میں اس انداز میں اصلاحات کی جائیں کہ اسے مزید جمہوری،شفاف اور عام ارکان کے سامنے جوابدہ بنایا جائے ۔

سلامتی کونسل کی اصلاحات میں ہر رکن ملک کو دلچسپی ہے یہ کام زیادہ سے زیادہ ممکنہ اتفاق رائے کے ذریعے کیا جائے ۔صدر نے کہاکہ جنرل اسمبلی کے اس اہم اجلاس میں آئندہ سیکرٹری جنرل کا انتخاب ہو گا پاکستان امید رکھتا ہے کہ اس ضمن میں سلامتی کونسل میں جلد اتفاق رائے ہو جائے گا اور یہ اسمبلی ایشیاء سے امید وار کو قبول کرے گی ۔پاکستان نئے سیکرٹری جنرل سے مکمل تعاون کرے گا جیسا کہ ہم نے کوفی عنان سے کیا تاکہ اقوام متحدہ کی تعمیر نو کی جاسکے اور یہ جنگ کی لعنت روکنے اور بڑے پیمانے پر آزادی اور تمام لوگوں کے بہتر معیارزندگی کے لیے کام کرسکے ۔