قانون سے کوئی بالاتر نہیں، آلودگی پھیلانے والی انڈسٹریوں کو فوری طور پر بند کردیا جائے، چیف جسٹس کے ریمارکس

پیر 22 جنوری 2007 14:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22جنوری۔2007ء) چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے اسلام آباد میں ماحولیاتی آلودگی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ وزارت ماحولیات نے کبھی بھی اس بات کا نوٹس نہیں لیا ہے کہ پورے ملک میں قائم صنعتوں کا فضلہ سمندر اور دریاؤں میں ڈالا جارہا ہے اسلام آباد میں ہر جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ماحول کی حالت انتہائی ابتر ہے ہیپاٹائٹس سی گندے پانی کی وجہ سے ہورہا ہے قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے اگر کوئی انڈسٹری ایک فیصد بھی آلودگی پھیلا رہی ہے تو اسے فوری طور پر بند کردیا جائے جبکہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ڈی جی ماحولیات کو سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وزارت ماحولیات کے افسران اب صرف بیرونی دوروں کے لئے رہ گئے ہیں کروڑوں روپے کا بجٹ ہے اور ماحول کی حالت خراب سے خراب ہورہی ہے آپ کس کام کے لئے بیٹھے ہیں اگر کوئی انڈسٹری بند نہیں کرسکتے تو ایسی وزارت کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے آپ صرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہو جب آپ کو معلو ہے کہ انڈسٹریز اسلام آباد میں آلودگی پھیلا رہی ہیں تو انہیں بند کیوں نہیں کیا پچاس کروڑ کا بجٹ صرف بیرونی دوروں پر استعمال کیا جارہا ہے انہوں نے یہ ریمارکس سوموار کے روز محمد نذیر اور سلمان صدیقی کی ماحول کے حوالے سے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے دوران ادا کئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ڈی جی ماحولیات آصف شجاع اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ناصر سعید شیخ پیش ہوئے ڈی جی ماحولیات نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسلام آباد کا سروے کیا ہے جس میں آٹھ طرح کی انڈسٹریز ہیں جن میں سٹیل فرنسز کے آٹھ ، ری رولنگ کے گیارہ، ماربل کے اکتیس اور جی آئی پائپس کے دو یونٹ کام کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

آلودگی کا سبب سٹیل فرنسز کی انڈسٹری ہے کیونکہ ان فیکٹریوں سے ایک دھواں خارج ہوتا ہے جس میں دس سے بارہ کلو گرام فی ٹن پارٹیکلز پیدا ہوتے ہیں اس حوالے سے سی ڈی اے کو بھی کہا ہے کہ کوئی بھی صنعت جو اسلام آباد میں لگائی جائے گی اگر وہ آلودگی پھیلائے گی تو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی پہلے اسلام آباد میں بفر زون ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو اتنے مسائل کا سامنا نہیں تھا جب سے بفر زون ختم کئے گئے ہیں اس وجہ سے بھی لوگوں کی صحت پر ماحولیاتی آلودگی کا براہ راست اثر پڑ رہا ہے فیکٹریاں سکریپ ی بہت ہی ناقص قسم استعمال کررہی ہیں جس میں گھی کے ڈبے اور ہر قسم کا ریئر استعمال کیا جارہا ہے اس حوالے سے آٹھ انڈسٹریز کو نوٹس جاری کئے گئے تھے جنہوں نے ماحولیات کے تحفظ کے لئے اقدامات کا وعدہ کیا ہے اور اگر انہوں نے اس بات کا خیال نہ رکھا تو انہیں باقاعدہ طور پر بند کردیا جائے گا ابھی تک دو انڈسٹریز ایسی ہیں جنہوں نے ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لئے اپنے کسی پلان کا اعلان نہیں کیا ان کے خلاف ٹریبونل میں مقدمات بھیج دیئے گئے ہیں جن کی سماعت جلد شروع ہوجائے گی اسلام آباد میں نو نالے گزرتے ہیں جن مین سے بارش کا پانی گزرتا تھا مگر اب یہ نالے بھی گندگی کا مجموعہ بن چکے ہیں گرین بیلٹ ختم کیا جارہا ہے اور سی ڈی اے نئے منصوبے شروع کرچکی ہے جس کی وجہ سے انہیں بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے ڈی جی ماحولیات کی رپورٹ پر عدالت نے انتہائی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے نامکمل قرار دیا اور ماحولیات کی وزارت کو ہدایت کی کہ پاکستان انوائرمنٹل ایکٹ 1997ء کے تحت تمام آلودگی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرکے اس کی مکمل رپورٹ چیمبر میں پیش کی جائے وفاقی وزارت ماحولیات کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ چاروں ایڈووکیٹ جنرل اور صوبائی وزارت ماحولیات سے رابطہ کریں اور ماحول کی بہتری کے لئے بھرپور اقدامات کئے جائیں علاوہ ازیں اسلام آباد کے ماحول کے حوالے سے بھی مکمل رپورٹ تیار کرکے چیمبر میں پیش کی جائے دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل ناصر سعید شیخ نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب سرحد اور بلوچستان میں ٹریبونل قائم کئے جاچکے ہیں اور چیرپرسنز ممبر لیگل اور ممبر ٹیکنیکل کی تعیناتی ہوچکی ہے جبکہ سندھ کے حوالے سے سمری تیار ہوچکی ہے جو وزیراعظم ہاؤس میں منظوری کے لئے موجود ہے چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ ٹریبونل کے حوالے سے باقی خالی آسامیوں پر وزارت قانون سے مل کر تعیناتی ایک ہفتے کے اندر مکمل کریں اور اس کی رپورٹ بھی چیمبر میں پیش کریں مزید سماعت 19فروری کو ہوگی۔

متعلقہ عنوان :