ّچترال، برفانی تودہ گرنے سے ہلاکتوں کی تعداد 34ہو گئی

منگل 3 اپریل 2007 11:21

چترال(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین03 اپریل 2007) کے تحصیل تورکہو کے واشیچ گاؤں میں جو تباہ کن برفانی تودہ گر چکا تھا جس کے نتیجے میں اب تک 29 افراد جاں بحق ہوچکے تھے امدادی کاروائیوں کے دوران وہاں ملبے سے 5 لاشیں مزید نکل گئے اسی طرح واشیچ گاؤں میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 34 ہوگئی۔ اسی طرح ایک دوسرے واقعے میں گرم چشمہ کے مقام پر پوستکی گاؤں میں چار بندے جاں بحق ہوچکے تھے تاہم آج کے تازہ واقعہ میں چترال سے 25 کلومیٹر دور گرم چشمہ روڈ پر مومی نامی گاؤں میں برفانی تودہ گرنے سے مرزا خان نامی شحص کا گھر مکمل تباہ ہوگیا جبکہ اس کے پڑوس میں کئی اور مکانات بھی ملیامیٹ ہوگئے جس کے نتیجے میں گیارہ افراد برفانی تودے اور ملبے کے نیچے دب گئے علاقے کے لوگوں نے فوری طور امدادی کاروائیں شروع کرکے وہاں سے لوگوں کو زندہ یا مردہ حالت میں نکالنے کی کوششیں جاری کی ہوئی ہیں تاہم آحری اطلاعات آنے تک ابھی تک ملبے سے کوئی شحص کو زندہ یا مردہ نہیں نکالا جاسکا۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ شغور کے وادی میں ایک سکول، ایک جماعت خانہ اور کئی گھر برفانی تودے کے نیچے دب کر تباہ ہوگئے جس کے نتیجے میں 16 افراد زحمی ہوگئے۔ پیر کے روز پاکستان ایئر فورس کے ایک C-130 جہاز میں 18000 پونڈ امدادی سامان چترال پہنچایا گیا جسے بعد ازاں دو فوجی ہیلی کاپٹروں میں متاثرہ علاقوں تک پہنچایا گیا اس کے علاوہ فوکس AKFکے ایک نجی ہیلی کاپٹر نے بھی امدادی سامان اور ڈاکٹروں کا ایک ٹیم متاثرہ علاقے تک پہنچایا ۔

دریں اثناء چترال ائیر پورٹ پر ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی چترال مولانا عبد الاکبر چترالی، رکن صوبائی اسمبلی چترال مولانا محمد جہانگیر اور ضلع ناظم چترال حاجی مغفرت شاہ نے صوبائی اور وفاقی حکومت کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مصیب کے اس گھڑی میں ان کا ساتھ دیا۔ صوبائی وزیر اعلے ٰ اکرم خان درانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی طرف سے پچاس لاکھ روپے کا امداد ناکافی ہے اسی طرح انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اس تباہ کن حادثے میں مرنے والوں کیلئے ایک لاکھ روپے جبکہ زحمیوں کیلئے پچاس ہزار روپے بطور امداد دینے کا اعلان بھی کیا ہے انہوں نے وزیر اعظم شوکت عزیز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مزید امداد کا مطالبہ کیا رکن صوبائی اسمبلی مولانا محمد جہانگیر نے مطالبہ کیا کہ چترال کیلئے بیس کروڑ روپے کا امدادی رقم جاری کیا جائے کیونکہ جو تباہی اس وقت دیکھنے میں آئی ہے وہ ضلعی حکومت کی بس کی بات نہیں کہ اس پر قابو پالے۔

ضلعی حکومت کی طرف سے امدادی سامان اور صوبائی و مرکزی حکومت کی طرف سے ضروی آشیاء فوجی ہیلی کاپٹروں میں متاثرہ علاقوں تک پہنچایا گیا۔ فوکس اور فوجی ہیلی کاپٹروں نے محکمہ صحت چترال اور آغا خان ہیلتھ سروس کے ڈاکٹروں کا ایک کھیپ بھی متاثرہ علاقوں میں پہنچایا۔ ان ہیلی کاپٹروں میں وہ لوگ بھی پہنچائے گئے جن کا پورا پورا خاندان ہلاک ہوچکا تھا چترال ایر پورٹ پر کھڑا ہوا ایک طالب علم جو سسکیا ں لیتا رہا ان کا پورا خاندان جاں بحق ہوا ہے ان ہیلی کاپٹروں میں ان علاقوں سے تشویش ناک زحمیوں کو بھی لایا گیا جنہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال اور پشاور کے ہسپتالوں کو منتقل کیا گیا۔

ہمارے نمائندے بھی ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ۔انہوں نے اپنا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے اس علاقے میں تباہی و بربادی کے سو ا اور کچھ بھی نہیں دیکھا۔ پوری بستی کی بستی ملامیٹ ہوچکی ہے چترال سے لیکر بونی، مستوج، تورکھو اور تمام وادیوں کی سڑکیں مٹی کے تودے، برفانی تودوں اور بھاری پتھر لڑھک کر سڑک پر گرنے سے تمام سڑکیں بلاک ہیں جس پر کوئی پیدل بھی نہیں جاسکتا۔

راستے میں کئی گاڑیں پھنسی ہوئی ہیں جن کی نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آتا۔ لوگ حیموں میں رہنے پر مجبور ہیں سڑکیں ، راستے، مساجد ، مکانات اور سکول وغیرہ سب برفانی تودوں کے نیچے آکر تباہ ہوچکے ہیں۔ وہاں آشیائے خوردنی کی شدید قلعت ہے ۔ مواصلات کا نظام درہم برہم ہے کوئی ٹیلیفون یا کوئی اور ذریعہ نہیں بچا جس سے وہاں رابطہ کیا جاسکے سوائے ہیلی کاپٹر کے کوئی دوسری سواری جا نہیں سکتی۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شالی آرکاری وادی کے پیچ اوس کے قریب مومی نامی گاؤں میں گیارہ افراد برفانی تودے کے نیچے دب چکے ہیں جن کی باہر نکالنے کی کوششیں جاری ہیں تاہم ابھی تک کسی زندہ یا مردہ شحص کو وہاں سے نہیں نکالا جاسکا۔ شغور کے علاقے میں سولہ افراد زحمی ہوگئے ہیں جبکہ حسن آباد ، بحتولی، پرسان وغیرہ میں کئی سکول، مکانات، جماعت حانہ اور مساجد کو نقصان پہنچا ہے۔

وہاں کے تمام سڑکیں مکمل طور پر بلاک ہیں ۔ واشیچ گاؤں میں برفانی تودے کے ضد میں آکر ایک ہی خاندان کے 9 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں تاہم خاندان کا ایک معمر فرد قاضی ذرین خان معجزاتی طور پر زندہ بچ نکلے۔ علاقے کے رضاکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور کوشش جاری ہے کہ ان لوگوں کو زندہ نکالاجاسکے۔ ضلع ناظم چترال مغرت شاہ کے مطابق چترال میں کئی ایسے وادیاں ہیں جو مکمل طور پر منقطع ہیں جیسے گوبور ، بیگوش وادی وغیرہ جہاں پر بہت زیادہ برف پڑی ہے اور وہاں کوئی رابطہ نہیں ہوسکتا تاہم حدشہ ہے کہ ان علاقوں میں بھی برفانی تودے سے کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا۔

اور کئی جانیں ضائیع ہوچکی ہوگی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حالیہ برف باری اور اس کے نتیجے میں آنے والے برفانی تودے اور مٹی کے تودے گرنے سے کروڑوں روپے کانقصان ہوا ہے اور کئی قیمی جانیں ضایع ہوئی ہیں۔ اس وقت چترال میں کوئی ایسی وادی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی تباہی نہ مچی ہوگی۔

متعلقہ عنوان :