جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت منگل 24اپریل تک ملتوی ،تین ججوں پر کئے گئے اعتراضات کی سب سے پہلے سماعت اور فیصلے کی درخواست مسترد ، چیف جسٹس نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ۔تصحیح شدہ

بدھ 18 اپریل 2007 17:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18اپریل۔2007ء ) سپریم جوڈیشل کونسل نے غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت منگل 24اپریل تک ملتوی کردی ہے جبکہ چیف جسٹس کی طرف سے تین ججوں پر کئے گئے اعتراضات کی سب سے پہلے سماعت اور فیصلے کی درخواست کونسل نے مسترد کردی ہے چیف جسٹس کی طرف سے جوڈیشل کونسل کی تشکیل اور دیگر امور کے حوالے سے درخواستوں پر ریفرنگ اتھارٹی کے وکلاء کے دلائل آئندہ سماعت پر جاری رہیں گے۔

بدھ کو سپریم جوڈیشل کونسل نے تقریباً تین گھنٹے سے زائد وقت تک صدارتی ریفرنس کی بند کمرے میں سماعت کی اس دوران جسٹس افتخار محمد چوہدری کے وکلاء کی طرف سے کونسل کے تین ججوں کے خلاف اٹھائے گئے اعتراضات کی سب سے پہلے سماعت اور فیصلے کی درخواست مسترد کردی گئی ۔

(جاری ہے)

جسٹس افتخار کے وکلاء کا موقف تھا کہ کونسل میں شامل تین ججز سے غیر جانبداری کی توقع نہیں ہے اس لئے ان کی کونسل میں موجودگی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے اس حوالے سے جسٹس افتخار کے وکلاء نے دلائل مکمل کر لئے جبکہ ریفرنگ اتھارٹی کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے عدالت سے وقت لینے کی استدعا کی جس پر ریفرنس کی سماعت 24اپریل تک ملتوی کردی گئی ریفرنگ اتھارٹی کے وکلاء آئندہ سماعت پر اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں قائم مقام چیف جسٹس سپریم کورٹ رانا بھگوان داس، جسٹس جاوید اقبال،جسٹس عبد الحمید ڈوگر، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس چوہدری افتخار حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد شامل ہیں ۔ جبکہ بیرسٹر اعتزاز احسن ، جسٹس (ر ) طارق محمود، حامد خان،علی احمد کرد، منیر اے ملک،قاضی محمد انور پر مشتمل چھ رکنی وکلاء پینل پیش ہوا۔

ادھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے صدارتی ریفرنس میں اپنے وکیل اور معروف قانون دان چوہدری اعتزاز احسن اور دیگر کے ذریعے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی ہے جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل، اس کے اختیارات اور اس کی کارروائی کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ چوہدری اعتزاز احسن نے بدھ کو صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران وقفے میں سپریم کورٹ جا کر یہ آئینی درخواست دائر کی جس میں132 آئینی نکات اٹھائے گئے ہیں ۔

بعد ازاں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ ہم نے 132آئینی اعتراضات اٹھائے ہیں اور موقف اختیار کیا ہے کہ اس کونسل کی تشکیل، اختیارات اور کارروائی غیر آئینی ہے ۔ ہمارا موقف ہے کہ یہ کونسل چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتی بلکہ چیف جسٹس کے مواخذے کا آئینی طریقہ کار مختلف ہے ۔چیف جسٹس کی سربراہی کے بغیر اس کونسل کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ۔

قائم مقام چیف جسٹس اس کی سربراہی نہیں کرسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ 1996ء میں ججز کیس میں فیصلہ دے چکی ہے کہ چیف جسٹس کے بغیر سپریم جوڈیشل کونسل غیر آئنی اور نامکمل ہے اور قائم مقام چیف جسٹس اس کی سربراہی نہیں کرسکتے انہوں نے کہاکہ ہم نے مختلف ججوں پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں اور بند کمرے میں کونسل کی کارروائی کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ۔

ہماری درخواست دفتر میں داخل کردی گئی ہے جس کے بعد اس پر مزید کارروائی ہوگی ۔ اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18اپریل۔2007ء ) سپریم جوڈیشل کونسل نے غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت منگل 24اپریل تک ملتوی کردی ہے جبکہ چیف جسٹس کی طرف سے تین ججوں پر کئے گئے اعتراضات کی سب سے پہلے سماعت اور فیصلے کی درخواست کونسل نے مسترد کردی ہے چیف جسٹس کی طرف سے جوڈیشل کونسل کی تشکیل اور دیگر امور کے حوالے سے درخواستوں پر ریفرنگ اتھارٹی کے وکلاء کے دلائل آئندہ سماعت پر جاری رہیں گے۔

بدھ کو سپریم جوڈیشل کونسل نے تقریباً تین گھنٹے سے زائد وقت تک صدارتی ریفرنس کی بند کمرے میں سماعت کی اس دوران جسٹس افتخار محمد چوہدری کے وکلاء کی طرف سے کونسل کے تین ججوں کے خلاف اٹھائے گئے اعتراضات کی سب سے پہلے سماعت اور فیصلے کی درخواست مسترد کردی گئی ۔جسٹس افتخار کے وکلاء کا موقف تھا کہ کونسل میں شامل تین ججز سے غیر جانبداری کی توقع نہیں ہے اس لئے ان کی کونسل میں موجودگی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے اس حوالے سے جسٹس افتخار کے وکلاء نے دلائل مکمل کر لئے جبکہ ریفرنگ اتھارٹی کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے عدالت سے وقت لینے کی استدعا کی جس پر ریفرنس کی سماعت 24اپریل تک ملتوی کردی گئی ریفرنگ اتھارٹی کے وکلاء آئندہ سماعت پر اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں قائم مقام چیف جسٹس سپریم کورٹ رانا بھگوان داس، جسٹس جاوید اقبال،جسٹس عبد الحمید ڈوگر، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس چوہدری افتخار حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد شامل ہیں ۔ جبکہ بیرسٹر اعتزاز احسن ، جسٹس (ر ) طارق محمود، حامد خان،علی احمد کرد، منیر اے ملک،قاضی محمد انور پر مشتمل چھ رکنی وکلاء پینل پیش ہوا۔

ادھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے صدارتی ریفرنس میں اپنے وکیل اور معروف قانون دان چوہدری اعتزاز احسن اور دیگر کے ذریعے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی ہے جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل، اس کے اختیارات اور اس کی کارروائی کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ چوہدری اعتزاز احسن نے بدھ کو صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران وقفے میں سپریم کورٹ جا کر یہ آئینی درخواست دائر کی جس میں132 آئینی نکات اٹھائے گئے ہیں ۔

بعد ازاں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ ہم نے 132آئینی اعتراضات اٹھائے ہیں اور موقف اختیار کیا ہے کہ اس کونسل کی تشکیل، اختیارات اور کارروائی غیر آئینی ہے ۔ ہمارا موقف ہے کہ یہ کونسل چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتی بلکہ چیف جسٹس کے مواخذے کا آئینی طریقہ کار مختلف ہے ۔چیف جسٹس کی سربراہی کے بغیر اس کونسل کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ۔

قائم مقام چیف جسٹس اس کی سربراہی نہیں کرسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ 1996ء میں ججز کیس میں فیصلہ دے چکی ہے کہ چیف جسٹس کے بغیر سپریم جوڈیشل کونسل غیر آئنی اور نامکمل ہے اور قائم مقام چیف جسٹس اس کی سربراہی نہیں کرسکتے انہوں نے کہاکہ ہم نے مختلف ججوں پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں اور بند کمرے میں کونسل کی کارروائی کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ۔

ہماری درخواست دفتر میں داخل کردی گئی ہے جس کے بعد اس پر مزید کارروائی ہوگی ۔