سپریم کورٹ کے جج جسٹس رضا خان نے چیف جسٹس کی درخواست کی سماعت کرنے سے انکا رکردیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس کے حوالے سے جو آرڈر پاس کیا تھا ۔ اس پر میرے بھی دستخط ہیں اس لئے کیس کی سماعت نہیں کرسکتا ۔جسٹس رضا خان نے چیف جسٹس کی معطلی اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل کے حوالے سے دائر تمام درخواستیں لارجر بینچ کی تشکیل کی سفارش کے ساتھ قائم مقام چیف جسٹس کو بھجوا دیں

منگل 24 اپریل 2007 11:22

اسلام آباد (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار 24 اپریل 2007) سپریم کورٹ کے جج جسٹس سردار رضا خان نے چیف جسٹس کی درخواست کی سماعت کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس حوالے سے تمام درخواستیں یکجا کرکے قائم مقام چیف جسٹس کو بھیج دی ہیں اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ چاہیں تو اس پر لارجر بینچ یا پھر فل کورٹ بینچ تشکیل دیں۔ یہ فیصلہ انہوں نے منگل کے روز یہاں چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کی درخواست کی سماعت کے دوران جاری کیا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل‘ ان کو غیر فعال کرنے کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جسٹس سردار رضا خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ جسٹس چوہدری اعجاز اور جسٹس حامد علی مرزا پر مشتمل تھا نے منگل کے روز چیف جسٹس کی درخواست کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس کی طرف سے چوہدری اعتزاز احسن اور حامد علی خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل مخدوم علی خان‘سید شریف الدین پیرزاہ‘ قیوم ملک‘ مقبول الٰہی ملک ‘ رائے احمد نواز خان کھرل اور سردار ابراہیم ستی پیش ہوئے۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس سردار رضا خان نے چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن سے کہا کہ آپ نے جس سپریم جوڈیشل کونسل آرڈر کو چیلنج کیا ہے اس پر میرے بھی دستخط ہیں۔ اس لئے میں اس کی سماعت نہیں کرسکتا اور یہ سکینڈل بنانے کے لئے کافی ہے۔ اس پر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ آپ سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر نہیں رہے اس لئے آپ اس کی سماعت کرسکتے ہیں۔

جس پر جسٹس رضا خان نے کہا کہ یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے اعتراض کسی کو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے چونکہ کہنے والے کہیں گے کہ خود ہی آرڈر کیا تھا اور خود اپنے آرڈر کو ختم کردیا اس پر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ معاملات میں عجیب سی صورتحال ہے دونوں طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہے اس پر جسٹس رضا خان نے کہا کہ میں اس معاملے کو اس لئے سنجیدگی سے لے رہا ہوں کہ کل یہ چھوٹا معاملہ بڑا بھی ہوسکتا ہے۔

اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور شہریوں کے طور پر جنہوں نے بھی درخواستیں دی ہیں وہ اس معاملے کوبہتر طریقے سے اور حساس ہونے کی وجہ سے اس کا حل چاہتے ہیں۔ مجیب پیرزادہ نے کہا کہ یہ ایک جوڈیشل ریویو کا معاملہ ہے آئین اجازت دیتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرسکے اور سپریم کورٹ پہلے ہی کئی فیصلے تبدیل کرچکی ہے جس پر جسٹس رضا خان نے کہا کہ یہ بات بھی آئینی ہے بعض اعتراضات ایسے ہوتے ہیں جو کسی کو تبدیل کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور بعض کو لانے کے لئے ہوتے ہیں۔

یہ میرا فائنل فیصلہ ہے آپ تو اس کی بات کرتے ہیں میں نے جو ہائی کورٹ میں فیصلے کئے ہیں ان کے خلاف درخواست آجائے تو سماعت نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی حیثیت سے ایک حکم دیا تھا اور اس حکم کو میں بھلا بھی چکا تھا اس کے باوجود میں نے پرسوں اس کیس کی سماعت نہیں کی۔ اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ شریف الدین پیرزادہ کو کوئی اعتراض نہیں ہے حالانکہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ شریف الدین پیرزادہ ان کے خلاف کسی درخواست میں وکیل نہیں بنیں گے تاہم وہ آئے ہوئے ہیں اور ان کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔

قیوم ملک نے کہا کہ یہ اس آرڈر کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کررہے ہیں جس پر آپ نے دستخط کررکھے ہیں اس پر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ مخالف وکلاء چیف جسٹس کی معطلی چاہتے ہیں ہمیں آپ کی ذات پر اعتراض نہیں ہے اس پر جسٹس رضا خان نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے اور آپ ہی کا پیدا کردہ ہے مجھے سننے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے لیکن معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے میرا رخ بدل بھی سکتا ہے۔

یہ قانون کے مطابق نہیں ہوگا۔ وکلاء کے دلائل اور بار بار کے اصرار کے باوجود جسٹس سردار رضا خان نے چیف جسٹس کی درخواست کی سماعت کرنے سے انکا رکرتے ہوئے معاملہ قائم مقام چیف جسٹس کو بھجوا دیا ۔ یاد رہے کہ درخواست گزاروں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معطلی اور سپریم جوڈیشل کونسل کی پوزیشن کے حوالے سے درخواستیں دائر کررکھی ہیں اور فل کورٹ کی استدعا کی ہے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواستوں پر وفاق اور مدعا علیہان کو نوٹس جاری کردیئے ۔