چیف جسٹس کے ساتھ اکثر ملاقاتیں ہوئیں‘ میڈیا رپورٹس پر تبادلہ خیال کرتے تھے‘ بریگیڈیئر(ر) اعجاز احمد شاہ ۔ 9مارچ کو صدر نے ایک بجے ملاقات کیلئے بلایا‘ کسی نے چیف جسٹس کو استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کیا۔ سپریم کورٹ میں بیان حلفی

جمعرات 7 جون 2007 12:54

اسلام آباد (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار07 جون 2007) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر (ر) اعجاز احمد شاہ نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں کہا ہے کہ میں نے ڈی جی آئی بی کے طور پر فروری 2004ء میں چارج سنبھالا جب مجھے ڈی جی آئی بی بنایا گیا اس وقت میں بطور ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب کام کررہا تھا ان دنوں میری ملاقات چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ہوئی اور ان سے اچھے تعلقات استوار ہوگئے جو ڈی جی آئی بی بننے کے باوجود بھی جاری رہے ہمارے درمیان بے تکلفانہ تعلقات قائم ہوگئے اور ہم ایک دوسرے سے ملتے رہے ان ملاقاتوں میں دفتری امور‘ سیاسی صورتحال‘ انتظامی امور اور ان مقدمات کے حوالے سے بات چیت ہوتی تھی جو سپریم کورٹ میں زی رسماعت تھے۔

وہ کئی دفعہ میرے ہاں آئے اور میں بھی کئی دفعہ ان سے ملنے جاتا رہا کئی بار میں چیف جسٹس کی خواہش پر ان سے ملنے جاتا رہا اور یہ تمام ملاقاتیں بہت ہی اچھے اور دوستانہ انداز میں تھیں چیف جسٹس میڈیا کی رپورٹس کے حوالے سے بہت حساس تھے کہ وہ انہیں نقصان پہنچا رہی ہیں انہوں نے مجھے کہا کہ بطور ڈی جی آئی بی ان رپورٹس پر ان کے ساتھ تبادلہ خیال کروں انہوں نے مجھ سے صدر پاکستان کے ساتھ 13 فروری 2007ء کی ملاقات کے حوالے سے بھی ایشو پر بات چیت کی 9مارچ کو صدر پاکستان نے مجھے ایک بجے دن ملاقات کے لئے ہمراہ چیف آف سٹاف‘ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی کے ساتھ ملاقات کروں صدر پاکستان‘ وزیراعظم پاکستان چیف جسٹس آف پاکستان اور صدر کے ملٹری سیکرٹری بھی ملاقات میں موجود تھے۔

(جاری ہے)

صدر پاکستان کو وزیراعظم پاکستان نے 8مارچ کو چیف جسٹس کے خلاف ایک ریفرنس بھیجا کہ وہ یہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائیں اور کونسل اس معاملے کی انکوائری کرے۔ ایک بجے سے دو بجے دن تک ریفرنس کے حوالے سے مختلف بحث و مباحثہ ہوتا رہا جس میں مختلف خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں بھی شامل تھیں دوران مباحثہ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ وہ ریفرنس کا سامنا کریں گے چیف جسٹس نے اپنے حلفی بیان میں جو یہ کہا ہے کہ ان کے استعفیٰ دینے کے انکار پر صدر پاکستان غصے میں آگئے تھے اور کمرے سے چلے گئے تھے صدر پاکستان غصہ نہیں ہوئے تھے دوران ملاقات صدر پاکستان بہت پرسکون اور باوقار تھے وہ کبھی غصے نہیں ہوئے اور غصے میں نہیں گئے۔

انہوں نے اپنے بیان حلفی میں مزید کہا ہے کہ یہ بھی درست نہیں ہے جو چیف جسٹس نے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے ک صدر سے انہوں نے کہا تھا کہ میں قانون کا خود محافظ ہوں مجھے الله تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے وہ میری مدد کریں گے۔ اس طرح کے کوئی الفاظ انہوں نے ادا نہیں کئے تھے۔ یہ ملاقات دو بجے دن تک جاری رہی بعد ازاں صدر پاکستان اور وزیراعظم جمعہ کی نماز پڑھنے چلے گئے اسی دوران ملٹری سیکرٹری اور چیف آف سٹاف بھی چلے گئے۔

اس کے بعد ہم تینوں میں نے اور ڈی جی آئی ایس آئی‘ ڈی جی ایم آئی نے مشترکہ ریفرنس پر بحث جاری رکھی تاہم اس بحث کا کوئی نتیجہ نہ نکلا کسی نے بھی چیف جسٹس کو استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کیا کیونکہ چیف جسٹس نے صدر اور وزیراعظم پر واضح کردیا تھا کہ وہ ریفرنس کا سامنا کریں گے تین بجے دن چیف جسٹس اور ڈی جی ایم آئی باتوں کے لئے پیچھے رہ گئے۔

متعلقہ عنوان :