قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پانچ سالوں میں کھربوں روپے کی کرپشن کی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ مسترد کردی ، سپریم کورٹ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور پارلیمانی قائمہ کمیٹیوں کے اقدامات کے نتیجہ میں کرپشن بڑھی نہیں کم ہوئی ہے، ایف بی آر کو کمیٹی کی 5 سالوں دی جانے والی ہدایات پر پندرہ دنوں میں عملدرآمد کرنے ، گاڑیوں کی برآمد پر 5 فیصد ڈیوٹی اور مشینوں کی درآمد پر عائد 10 فیصد ڈیوٹی وصول کرنے کے حوالے سے 30 سالہ مکمل ریکارڈ طلب کرلیا،5 سالہ پرانی گاڑیاں درآمد کرنے کی مدت کم کرکے 3 سال کرنے سے ادارے کو 17 ارب کا نقصان ہوگا، ایف بی آر

جمعرات 6 دسمبر 2012 19:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔6دسمبر۔ 2012ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں میں کھربوں روپے کی کرپشن کے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو مسترد کرکے اس کی شدید مذمت کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ سپریم کورٹ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور پارلیمانی قائمہ کمیٹیوں کے اقدامات کے نتیجہ میں کرپشن بڑھی نہیں کم ہوئی ہے، ایف بی آر کے حوالے سے کمیٹی نے 5 سالوں دی جانے والی ہدایات پر پندرہ دنوں میں عملدرآمد کرنے ، گاڑیوں کی برآمد پر 5 فیصد ڈیوٹی اور مشینوں کی درآمد پر عائد 10 فیصد ڈیوٹی وصول کرنے کے حوالے سے 30 سالہ مکمل ریکارڈ ایف بی آر سے طلب کرلیا ، ایف بی آر کے حکام نے کہا ہے کہ 5 سال پرانی گاڑیاں درآمد کرنے کی مدت کم کرکے 3 سال کرنے سے ادارے کو 17 ارب روپے کا نقصان ہوگا۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ندیم افضل گوندل کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ، اجلاس میں چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کی شدید مذمت کرتے ہیں ، میں چیلنج کرتا ہوں کہ پی اے سی کے سامنے بیٹھ کر رپورٹ کا موازنہ کرلیں ، کمیٹی نے پاکستان ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے آڈٹ ، اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے ہدایت کی حکومت سے قرض لینے والے افسران سے ہر صورت میں ریکوری کی جائے جو رقم واپس نہیں کرتے ان کے شناختی کارڈ بلاک کردیئے جائیں ، کمیٹی نے ٹورازم کارپوریشن بورڈ آف گورنرز کا اجلاس طویل عرصے سے نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ بورڈ کا اجلاس بلانے کے لئے وفاقی وزیر کو پی اے سی کی جانب سے خط لکھا جائے ، اجلاس نہ ہونے کے باعث بہت سے معاملات رکے ہوئے ہیں، کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ پاکستان ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے ملازمین نے 2کروڑ 32 لاکھ روپے قرضہ لیا مگر واپس نہیں کیا ، سیکرٹری آئی پی سی نے بتایا کہ تمام قرض واپس لے لیا ہے صرف 11 لاکھ باقی رہ گئے ہیں ، آڈٹ حکام نے کہا کہ ہمیں اس کی تصدیق نہیں کروائی ، کمیٹی کوآڈٹ حکام نے بتایا کہ آئی پی سی نے 5گاڑیوں کی خریداری کے لئے آئی ٹریڈنگ سنٹر کو 24 لاکھ 94 ہزار روپے دیئے مگر ابھی تک گاڑیاں نہیں آئی ، وزارت کے حکام نے بتایا کہ یہ معاملہ عدالت میں گیا ، عدالت نے کمپنی کے مالک کے اکاؤنٹ سے رقم لینے کی ہدایت کی مگر اکاؤنٹ میں سے صرف 50 ہزار روپے نکلے ، کمیٹی نے ہدایت کی کہ مالک کی جائیداد کا پتہ لگایا جائے اور لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت رقم ریکوری کی جائے جبکہ وزارت کی جانب سے بغیر گارنٹی کے رقم دینے والوں کے خلاف ذمہ داری کا تعین کرکے کارروائی کی جائے اور 15 روز میں کمیٹی کو رپورٹ دی جائے ، آڈٹ حکام نے بتایا کہ سابق وزیر صحت نصیر خان نے 2سرکاری گاڑیاں 3 سال تک ذاتی استعمال میں رکھی جن پر 8 لاکھ 60 ہزار روپے خرچ آیا ، کمیٹی نے سابق وزیر سے اخراجات وصول کرنے کی ہدایت کی ہے ، چیئرمین کمیٹی نے ایف بی آر حکام سے استفسار کیا کہ کیا ایف بی آر کے سیکشن 88 پر عملدرآمد ہو رہا ہے جس پر ایف بی آر حکام نے کہا کہ اس سیکشن پر عملدرآمد ہورہا ہے جبکہ آڈٹ حکام نے کہا کہ اس شق پر عمل نہیں ہو رہا ہے کمیٹی نے گاڑیاں منگوانے پر عائد 5 فیصد ڈیوٹی اور مشینری پر عائد 10 فیصد ڈیوٹی وصول کرنے کے حوالے سے گزشتہ 30 سالوں کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا ہے ، چیئرمین پی اے سی نے ہدایت کی کہ 15 دنوں میں ایف بی آر ،پی اے سی کی ہدایات پر عملدرآمد کا کام مکمل کیا جائے ، رکن کمیٹی نور عالم نے کہا کہ بڑے گھروں والوں سے ٹیکس کے حوالے سے کیا ایف بی آر نے رابطہ کیا ہے ، پشاور میں سمگلنگ عروج پر ہے جس کی وجہ سے مقامی صنعت تباہ ہوگئی ہے ، مقامی صنعتیں کسٹم حکام کی غفلت کی وجہ سے بیٹھ رہی ہیں ، پشاور بلوچستان میں نان کسٹم گاڑیاں چل رہی ہیں ان کے خلاف کیا کارروائی کی جارہی ہے ، رکن کمیٹی سعید ظفر نے کہاکہ پی اے سی کی ذیلی کمیٹی نے پرانی گاڑیاں منگوانے کی مدت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کرنے کی سفارش کی تھی مگر اسے نظر انداز کرکے پھر 5 سال سے مدت کم کرکے 3 سال کی جارہی ہے ، کمیٹی کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف ذمہ داری کا تعین کیا جائے ، کمیٹی نے اس حوالے سے 5 روز میں رپورٹ طلب کرلی ہے ، ایف بی آر حکام نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اس معاملے کا جائزہ لے رہی ہے ، ایس آر او منظور ہوچکا ہے مگر جاری نہیں ہوا ، اس سے ایف بی آر کو 17 ارب روپے کا نقصان ہوگا ، اس حوالے سے وزارت صنعت نے براہ راست کابینہ سے منظوری لی ہے ، لوکل انڈسٹری ابھی مینو فیکچرر نہیں بنی ہے ، پی اے سی نے کہا کہ پی اے سی اور خزانہ کمیٹی کا اس حوالے سے مشترکہ اجلاس بلایا جائے ، ایف بی آر کے حکام نے بتایاکہ پچھلے ماہ 140 ارب روپے کی ریکوری ہوئی ہے ، کمیٹی نے ایف بی آر کے ریسٹ ہاؤسز میں غیر متعلقہ افراد کی رہائش کے معاملے کا نوٹس بھی لیا۔