امریکی عدالت کا گوانتا نامو بے کے قیدیوں کو زبردستی خوراک نہ دینے کا حکم،قیدیوں کو کھانے کے بہانے سیلوں سے بھی نہ نکالاجائے،جج گلیڈیز کیسلر…حکام کی عدالتی حکم پر عمل درآمد کی یقین دہانی

ہفتہ 17 مئی 2014 22:15

امریکی عدالت کا گوانتا نامو بے کے قیدیوں کو زبردستی خوراک نہ دینے کا ..

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17مئی۔2014ء) امریکی عدالت نے گوانتا نامو بے کے قید خانے میں بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کر زبردستی خوراک دینے سے عارضی طور پر فوج کو روک دیا ، یہ پہلا موقع ہے کہ کسی امریکی جج نے اس طرح کا حکم دیا ہے۔ پچھلے سال ایسی ہی ایک بھوک ہڑتال کے دوران 166 میں سے 46 قیدیوں کو زبردستی خوراک دی گئی تھی جبکہ متعدد پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔

میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی ضلعی عدالت کی جج گلیڈیز کیسلر نے امریکی حکومت کو ابو وائل الضِاب کے حوالے سے حکم دیا ہے کہ اسے 21 مئی تک زبردستی خوراک نہ دی جائے، اگلی سماعت 21 مئی کو ہوگی، عدالت نے قیدی کو جیل میں بنے اس کے سیل سے بھی اس مقصد کیلیے نکالنے سے روک دیا ہے،جج نے یہ بھی حکم دیا کہ اگلی سماعت تک حکومت زبردستی سیل سے نکالنے اور خوراک دینے کے ویڈیو ٹیپس محفوظ رکھے، محکمہ دفاع کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل ٹاڈ بریسیلی نے عدالتی حکم پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ، پچھلے سال جولائی میں واشنگٹن ڈی سی کی جج نے ایسی درخواست منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا اس معاملے میں صرف صدر اوباما ہی مداخلت کر سکتے ہیں تاہم ماہ فروری میں کولمبیا کی عدالت نے ایک اپیل کی بنیاد پر فیصلہ دیا کہ گوانتا ناموبے جیل کے قیدیوں کو حق ہے کہ وہ ایسے فوجیوں کیخلاف مقدمہ کر سکیں جو انہیں زبردستی خوراک دیں اور عدالت کو اس بارے میں درخواستیں سننے کا حق ہے۔

(جاری ہے)

قیدی ضیاب کے وکیل نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اسے ایک اہم موڑ قرار دیا۔ واضح رہے انسانی حقوق کیلیے سرگرم وکلاء اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کسی کو زبردستی خوراک دینا انسانی اور اخلاقی طور درست نہیں ہے،خیال رہے بھوک ہڑتال کرنے والے قیدیوں کو ناک کے ذریعے مشروبات وغیرہ دیے جاتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :