پاکستان میں غیر معیاری ادویات کا مسئلہ

DW ڈی ڈبلیو اتوار 28 اپریل 2024 20:40

پاکستان میں غیر معیاری ادویات کا مسئلہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 اپریل 2024ء) حال ہی میں راولپنڈی میں ایک ڈرگ کورٹ نے ایک بین الاقوامی دوا ساز کمپنی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر سمیت متعدد عہدیداران کو غیر معیاری ادویات سے متعلق کیس میں سزائیں سنائی ہیں۔

پاکستان میں بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں کے حوالے سے اس عدالتی فیصلے کو ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ GlaxoSmithKline (GSK) کے پاس پروڈکشن اور کوالٹی کنٹرول یونٹس ہونے کے باوجود اس کمپنی نے غیر معیاری ادویات مارکیٹ سے نہیں ہٹوائیں اور نہ ہی اس بات کی تحقیق کی کہ ان کی پروڈکشن کیسے ہوئی۔

عدالت نے اس کیس میں کمپنی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر کو سماعت کے اختتام تک قید کی سزا سناتے ہوئے ان پر سینتالیس لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔

(جاری ہے)

جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ان کی قید کی مدت میں تین ماہ کا اضافہ کر دیا جائے گا۔

دوا ساز کمپنی نے اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

غیر معیاری ادویات کا مسئلہ نیا نہیں

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان میں غیر معیاری ادویات کا مسئلہ منظر عام پر آیا ہے۔

دسمبر 2012ء میں گجرانوالہ میں غیر معیاری شربت پینے کے باعث 15 افراد کی موت کی خبر سامنے آئی تھی۔ اسی برس پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں بھی 150 سے زائد مریض غیر معیاری ادویات کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے تھے۔ اور یہ پچھلے سال کی ہی بات ہے جب حکومت پنجاب نے کھانسی کے پانچ غیر معیاری شربتوں پر پابندی لگائی تھی۔

غیر معیاری ادویات کا اسکینڈل، عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

مسئلے کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کی سنیٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے رکن عثمان خالد وحید نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد دوائیں غیر معیاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ''بہت ساری ایسی 'انڈر گراؤنڈ فیکٹریاں' بنی ہوئی ہیں جو ادویات بنا رہی ہیں، اور پنجاب کے موجودہ آئی جی ڈاکٹر عثمان انور جب فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی میں تھے تو انہوں نے اس طرح کی کچھ فیکٹریوں کے خلاف کارروائی بھی کی تھی۔‘‘

عثمان خالد وحید کے مطابق اس وقت ملک میں 621 دوا ساز کمپنیاں پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے رجسٹرڈ شدہ ہیں۔

ان کے مطابق یہ وہ کمپنیاں ہیں جو ''قوانین کا احترام کرتی ہیں"۔

ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبدالغفور شورو سے بھی بات کی، جن کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں غیر معیاری ادویات کی موجودگی کی ایک بڑی وجہ "کرپشن" بھی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ”امریکہ میں رجسٹرڈ دواؤں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق پانچ ہزار ہے، جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 80 ہزار کے قریب ہے۔

‘‘ ڈاکٹر عبدالغفور شورو کے بقول، "پاکستان میں فارماسوٹیکل کمپنیاں ایسے کھلتی ہیں جیسے موبائل کی دکانیں۔ حالانکہ جب کوئی نئی دوا لے کر آئے تو اس کے مشاہدے اور نتائج کو دیکھنے کے لیے اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں دواؤں کا رجسٹرڈ ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، جبکہ دواساز کمپنیاں بھی کوئی ریسرچ نہیں کرتیں۔

‘‘

اس حوالے سے ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف کا کہنا ہے، '' غیر معیاری ادویات وہ ہوتی ہیں، جو مقررہ معیار پر پوری نہ اترتی ہوں۔ اس طرح کی دوائیں دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں اور ان سے نمٹنے کا ایک طریقہ کارموجود ہے۔‘‘

عاصم رؤف کے مطابق ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ان غیر معیاری دواؤں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اصولوں کو پیش نظر رکھتی ہے۔ ''جب بھی کوئی غیر لائسنس یافتہ شخص یا اشخاص اس طرح کی دوائیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو انہیں فورا گرفتار کیا جاتا ہے اور قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔‘‘