غزہ میں مرنے والے کون تھے؟مرنے والوں میں عام شہری زیادہ تھے یا فائٹر، اس بارے میں متضاد اعداد و شمار سامنے آنے لگے ،لڑائی کے بارے میں عالمی رائے کے قیام میں ان ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر سکتے ہیں،حماس اور اسرائیل کے درمیان لڑائی میں ہلاک ہونے والے تقریباً 1900 فلسطینیوں میں سے تین چوتھائی عام شہری تھے،اقوام متحدہ انسانی حقوق گروپس

ہفتہ 9 اگست 2014 22:04

غزہ میں مرنے والے کون تھے؟مرنے والوں میں عام شہری زیادہ تھے یا فائٹر، ..

غزہ(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 9اگست 2014ء) غزہ جنگ کے نتیجے میں مرنے والوں میں عام شہری زیادہ تھے یا فائٹر۔ اس بارے میں متضاد اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں جو لڑائی کے بارے میں عالمی رائے کے قیام میں ان ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر سکتے ہیں۔خبر رساں ادارے اے پی نے اس شرح تناسب کو ایک خوفناک حساب کتاب قرار دیا ہے جس کے بارے میں غزہ میں کام کرنے والے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان لڑائی میں ہلاک ہونے والے تقریباً 1900 فلسطینیوں میں سے تین چوتھائی عام شہری تھے۔

ان میں ساڑھے 400 بچے بھی شامل تھے جبکہ بعض حملوں میں تو پورے کے پورے خاندان ہلاک ہو گئے۔اسرائیل کے اندازوں کے مطابق مرنے والوں میں سے چالیس سے پچاس فیصد تک فائٹر تھے۔

(جاری ہے)

اے پی کے مطابق ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھنے والے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں جس کے تحت اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ مرنے والوں میں سے کون عام شہری تھا اور کون فائٹر۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپ اس مقصد کے لیے عینی شاہدین اور فیلڈ ریسرچرز کے کمیونٹی روابط پر انحصار کرتے ہیں۔

المیزان سینٹر برائے انسانی حقوق کے محمود ابوراما کا کہنا ہے کہ ان کے محققین عام شہریوں اور فائٹرز کی ہلاکتوں کا تعین کرنے کے لیے کم از کم دو ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کا پتہ لگانے کے لیے اپنی انٹیلیجنس رپورٹیں استعمال کرتا ہے۔اے پی کے مطابق عام شہریوں اور دیگر ہلاکتوں کے تناسب کو فریقین اپنا اپنا موقف بیان کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں کہ دراصل لڑائی کے دوران کیا ہوا تھا۔

اسرائیل کو غزہ میں عام شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے عالمی تنقید کا سامنا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے بہت کچھ کر سکتا تھا۔بان کی مون نے رواں ہفتے ایک بیان میں کہا تھا: ”غزہ میں بھاری تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں اور بربادی نے دْنیا کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔

تاہم نیویارک میں کولمبیا لاء اسکول سے منسلک انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی وکیل سارا نَکی کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کے زیادہ تناسب سے یہ ضروری نہیں کہ جنگی ضوابط کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہو۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے قانونی سوال جنم لے سکتے ہیں لیکن یہ جواب نہیں ملتا کہ کسی بھی فریق نے غیرمتناسب حملوں کے خلاف کوئی قانون توڑا ہو۔

وہ کہتی ہیں کہ ہر واقعے کو انفرادی طور پر جانچنا ہو گا۔عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وضاحت کرتے ہوئے اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ غزہ میں رہائشی علاقوں سے حملے کیے گئے۔ اسرائیلی فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر، بریگیڈیئر جنرل مِکی آڈیلشٹائن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے ان کی زیر قیادت بہت زیادہ اہداف کو نشانہ بنانے سے اجتناب کیا تھا کیونکہ وہاں عام شہری موجود تھے اور حماس نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا۔