فنڈز کی کمی کی وجہ سے ادارے کی تحقیق کے متعدد منصوبے متاثر ہو رہے ہیں ،پروفیسرساجدمیر،

ملک میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے حکومت ہر سال تنخواہوں میں اضافہ تو کر دیتی ہے مگر ہمارے بجٹ میں اضافہ نہیں ہوتا، یہی حال رہا تو اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہی کا شکار ہو جائیں گے، میڈیکل کے شعبے میں لڑکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اعلیٰ تعلیمی ادارے بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے غریب ہونہار طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں بریفنگ

پیر 11 اگست 2014 21:28

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11اگست۔2014ء ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے چیئر مین سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پاکستان کا اہم تعلیمی و تحقیقی ادارہ ہے اور تحقیق کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی سرانجام دے رہا ہے مگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے ادارے کی تحقیق کے متعدد منصوبے متاثر ہو رہے ہیں اگر ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا ہے تو حکومت سائنس و ٹیکنالوجی کے تحقیق کے شعبے کی طرف خصوصی توجہ دے اور وافر مقدار میں فنڈز فراہم کرے ۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئر مین کمیٹی سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوٴس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی کارکردگی، فنکشنز ، بجٹ اور درپیش مسائل کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے نسٹ کا دورہ بھی کیا اور تعلیم و تحقیق، ترقیاتی منصوبوں ، انجینرنگ لیبز اور یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کا تفصیلی جائزہ لیا ۔

ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ مینجمنٹ انجینئر اشفاق شیخ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی کا سائنس و تحقیق کے میدان میں مقابلہ کرنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ سائنسی تعلیم و تحقیق کے فروغ کیلئے ملٹری کالج میں اس ادارے کا قیام 1991میں ہوا اور 1993میں چارٹر ایوارڈ کیا گیا ۔اس ادارے میں 80فیصدسویلین اور 20فیصد ملٹری کے طالب علم زیر تعلیم ہیں چارٹرڈ کے مطابق وزیر اعظم پاکستان اس یونیورسٹی کے چانسلر اور چیف آف آرمی سٹاف بورڈ آف گورنر کے چیئر مین ہیں ۔

یہ یورنیورسٹی ٹاپ 5سو یونیورسٹیوں میں سے 485ویں نمبر ہے اور ایشیاء کی بہترین 200یونیورسٹیوں میں سے 129ویں نمبر پر ہے اور ملکی سطح پر یہ ادارہ پہلے نمبر پر پہنچ چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2007میں ہمارے طلباء و طلبات کی تعداد 5909تھی جو 2013میں 13934تک پہنچ چکی ہے اور اب تک 14ہزار بچے ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں بچوں کا انتخاب مکمل میرٹ پر کیا جا تا ہے پچھلے سال 67 ہزارطالب علموں نے داخلے کیلئے درخواست دی تھی جن میں سے صرف 19سو منتخب ہوئے ۔

ہماری ڈگری بین ا لاقوامی سطح پر مانی جاتی ہے ۔ادارے کے 235 اساتذہ ٹریننگ کے لئے بیرون ملک گئے تھے جن میں سے 175واپس آ کر سروسز فراہم کر رہے ہیں اور باقی زیر تعلیم ہیں ۔انجینئر اشفاق شیخ نے کہا کہ ادارہ مختلف قسم کی تحقیق و پبلیکیشن میں مصروف ہے اور اب تک 2470مختلف پبلیکیشن کر چکا ہے ادارے سے12ہزار افراد ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں ہماری کل فیکلٹی 1138 افراد پر مشتمل ہے۔

جن میں سے 453پی ایچ ڈی ، 536ایم ایس اور 149بی ایس /بی ای / ایم بی بی ایس شامل ہیں ۔ ملکی سطح پر مختلف صنعتوں کیساتھ تحقیق کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں انہوں نے کہا تمام تر قومی سروسز کے باوجود ادارے کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے جسکی وجہ سے متعدد منصوبے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔ملک میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے حکومت ہر سال تنخواہوں میں اضافہ تو کر دیتی ہے مگر ہمارے بجٹ میں اضافہ نہیں ہوتا۔

جسکی وجہ سے ہماری فیکللٹی بیرون ملک شفٹ ہو رہی ہے اور سالانہ پندرہ فیصد اساتذہ ادارے کو خیر آباد کہہ رہے ہیں ۔اگر یہی حال رہا تو اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہی کا شکار ہو جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے ۔ جس پر سینیٹر ڈاکڑ کریم احمد خواجہ نے کہا ملک میں میڈیکل کے شعبے میں لڑکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر یہ پریکٹس تک محدود ہیں اور شادی کے بعد اکثر پریکٹس بھی چھوڑ جاتی ہیں ۔

اگلے دس سالوں میں ملک میں سپیشلسٹس کی کمی ہو جائے گی ۔سیکریٹری سائنس و ٹیکنالوجی کامران علی قریشی نے کہا کہ حکومت کو اس شعبے کی طرف توجہ دینی چاہیے ادارے کے پاس بہت اچھے منصوبے ہیں جن کی بدولت ملک کے بیشمار مسائل حل کئے جا سکتے ہیں ۔ مگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں ۔رکن کمیٹی سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے غریب ہونہار طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ۔

حکومت اعلیٰ تعلیم کیلئے 90فیصد اخراجات خود برداشت کرے اور 10فیصد طلباء سے وصول کرے ۔انہوں نے کہا کہ بیرون ملک نہ صرف بہترین تعلیم دی جاتی ہے بلکہ کھانا تک مفت فراہم کیا جاتا ہے ۔انہوں نے سفارش کی کہ اساتذہ کو ٹیکس فری قرار دیا جائے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں اور خصوصاً نسٹ میں طالب علموں کو صوبائی کوٹے کے مطابق داخلہ دیا جائے ۔کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز ڈاکٹر کریم احمد خواجہ ، مسز فرح عاقل ، مسز خالدہ پروین اور تاج حیدر کے علاوہ سیکریٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کامران علی قریشی ایڈیشنل سیکریٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی طاہر ایم خان ، ریکٹر نسٹ یونیورسٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر )محمد اصغر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔