عمران کے دھاندلی کے الزامات، وزیراعظم نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے تین رکنی تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کی درخواست کردی

منگل 12 اگست 2014 22:11

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12اگست۔2014ء) وزیر اعظم محمدنواز شریف نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے عام انتخابات میں لگائے گئے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے عدالت عظمیٰ کے تین ججز پر مشتمل آزاد کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کرتے ہوئے کہاکہ کمیشن 20013کے انتخابات پر مکمل تحقیقات کے بعد اپنی حتمی رائے دے  اب احتجاج کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی  حکومت انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کی متفقہ سفارشات پر پورے صدقِ دل سے عمل کریگی  اس مقصد کے لئے قانون بدلنا پڑا تو بدلیں گے  آئین میں ترمیم کرناپڑی تو کرینگے  اللہ کے فضل سے ملک میں کسی کی بادشاہت ہے اور نہ ہی آمریت  ہر سیاسی، آئینی، قانونی اور قومی معاملے میں اصلاح احوال کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں ملکی سیاسی قیادت کی مشاورت سے ہر طرح کے مذاکرات اور ہر قسم کی بات چیت کیلئے تیار ہوں اٹھارہ کروڑ عوام کی حمایت سے اسلامی جمہوریہ کے آئینی جمہوری تشخص پر آنچ نہیں آنے دیں گے  کسی کو مذہب کی آڑ میں لوگوں کو دوسروں کی گردنیں کاٹنے پر اُکسانے کی اجازت نہیں دینگے  پاکستان کو ہم ایسا جنگل نہیں بننے دیں گے جہاں ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ کا قانون چلنے لگے  امید ہے اچھی روایات رکھنے والا میڈیا عظیم قومی مقاصد کے لئے حقیقی معنوں میں ریاست کے چوتھے ستون کا کردار ادا کریگا۔

(جاری ہے)

منگل کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ آزادی کے موقع پر قوم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں یکم اگست سے آزادی تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے اس سال آزادی کی تقریبات پرآپریشن ضرب عضب اور بے گھر افراد کی مدد کیلئے عہد کرتے ہیں آزادی کا تقاضا ہے کہ وطن عزیز میں سیاسی استحکام ہو اور روشن منزلوں کی طرف بڑھے ہمارا ماضی سیاسی انتشار کا شکار رہا جس کی بھاری قیمت اداد کر چکے ہیں ہم عمر ہم سے کہیں زیادہ خوشحال ہو گئیں صرف انہوں نے ترقی کی جہاں سیاسی استحکام رہا آج وطن جمہوریت کے راہ پر چل رہا ہے تمام ریاستی ادارے آئین کے مطابق کام کررہے ہیں آزاد عدلیہ آئین اور جمہوریت کی پشت پر کھڑی ہے ایک حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی جس کے بعد خوش اسلوبی سے انتقال اقتدار ہو 2013کے انتخابات کے بعد ہر سطح پر عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کیا گیا خیبر پختوا خوا میں نئی جمہوری روایات کی بنیاد ڈالی گئی آزاد کشمیر میں مثبت کر دار ادا کیا گیا اور کوئی اکھاڑ بچھاڑ نہیں کی گئی اسی وجہ سے تمام حکومتیں یکسو سے کام کررہی ہیں وزیر اعظم نے کہاکہ 2018ء میں عوام حکومتی کار کر دگی پر فیصلہ کریں پہلے ایک حکومت آئی اس کی مدت مکمل ہو نے کے بعد دوسری حکومت نے اقتدار سنبھالا ایک وزیراعظم گیا اور دوسرا آیا ایک صدر آیا دوسرا گیا دونوں نے ایک دوسرے کو رخصت کیا اور خوش آمدید بھی کہا یہ ایک منصوبے کے تحت کیا گیا تاکہ پاکستان میں مثبت کلچر کو فروغ ملے 2013ء میں وطن عزیز مایوسی میں گھرا ہوا تھا ہم نے چیلنج سمجھ کر حکومت کو قبول کیا اور سالوں کا کام مہینوں اور دنوں میں کر نے کا عزم کیا میں یہ نہیں کہتا کہ حالات بہت اچھے ہوگئے ہیں لیکن گزشتہ چودہ ماہ کے دور ان پاکستان آگے ضرور بڑھا ہے قومی معیشت بہتر ہوئی ہے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے روپے میں کی قدر مستحکم ہوئی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے سٹاک ایکسچینج کی مضبوطی ہوئی ہے ملک بحرانوں کی دلدل میں نکلنے اور ترقی و خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن ہے 10ہزار 400میگا واٹ بجلی کے منصوبے طے پا چکے ہیں تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد بھاشا ڈیم کی تعمیر کا آغاز کررہے ہیں اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم ہوگا جہاں سے 4500میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی اور اتنی ہی بجلی داسو ڈیم سے پیدا ہوگی جس کی بنیاد رکھ رہے ہیں حکومت کا چودہ ماہ سے کرپشن کا کوئی سکینڈل نہیں آیا عالمی ادارے ہم پر اعتماد کررہے ہیں اس ہنگاموں کی وجہ بتائی جائے ؟کیوں ملک کو غربت  بد امنی اور دہشتگردی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں ؟عوام ان سے پوچھیں یہ کیوں رخنہ ڈال رہے ہیں سب جانتے ہیں کہ 2008ء کے انتخابات کس ماحول ہوئے 2002کے انتخابات کے موقع پر ہم جلا وطن تھے ڈیڑھ درجن نشستوں تک محدود کیا گیا 2008ء کے اندر ہمارے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے اور ہمیں نا اہل قرار دیاگیا لیکن ہم نے صبر اور تحمل سے انتخابی مہم چلائی اور پارلیمنٹ کے اندر اپنا کر دار ادا کیا مجھے پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بننے دیا گیا ہم نے دھاندلی کا رونا نہیں رویا 2013ء کے انتخابات اتفاق رائے سے نامزد ہونے والے چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہوئے نگران حکومتیں قائم ہوئیں انتخابی فہرستوں پر ووٹروں کی تصاویر شائع کی گئیں نادرا کے کارڈ کو ضروری قرار دیا گیا الزام تراشی کر نیوالوں کے مطالبات پر ججز صاحبان نے آر اوز کے فرائض انجام دینے کا کہا ۔

وزیر اعظم نے کہاکہ نگران حکومتوں میں ہمارا نامزدکر دہ کوئی نمائندہ نہیں تھا وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ پہلی بار پولنگ سٹیشن پر ہی تصدیق شدہ نتیجہ ہر پولنگ ایجنٹ کو دینے کے ضابطے پر سختی سے عمل کیا گیا۔ ایک سو کے لگ بھگ ملکی اور غیر ملکی ٹیلی ویژن چینلز اور صحافیوں نے انتخابی عمل کی کوریج کی اور دو سو کے لگ بھگ ملکی و غیر ملکی مبصرین نے نگرانی کے فرائض سر انجام دیئے۔

ان تمام مبصرین کی اجتماعی رائے ایک ہی ہے کہ انتخابات کا عمل شفاف، بے لاگ اور منصفانہ تھا۔ کسی ایک بھی ملکی یا غیر ملکی مبصر نے نہیں کہا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا ایسا کچھ ہوا کہ جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے۔ یہاں تک کہا گیا کہ بعض معمولی شکایات کے باوجود یہ ملکی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات تھے۔ انتخابی نتائج ، رائے عامہ کے ان جائزوں کے عین مطابق نکلے جن کا اہتمام مستند غیرملکی اور ملکی اداروں نے کیا تھا اس بار انتخابی شکایات کے ازالے کا نظام بھی ماضی سے بہتر رہا۔

معاملات کو تیزی سے نبٹانے کے لئے خصوصی ٹریبیونلز بنائے گئے۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر ان ٹریبیونلز کی سربراہی کے لئے ہائی کورٹس کے ریٹائر جج صاحبان کا تقرر ہوا۔ یہ تقرری بھی متعلقہ چیف جسٹس صاحبان کی طرف سے ہوئی۔ ان ٹریبیونلز نے ماضی کی نسبت کہیں تیزی سے کام کیا۔ چار سو سے زائد پیٹیشنز میں سے 75فیصد کے لگ بھگ نبٹائی جا چکی ہیں۔

وزیر اعظم نے کہاکہ جہاں تک انتخابی اصلاحات کا تعلق ہے، یہ معاملہ ہماری جما عت کے منشور کا حصہ ہے۔ اِسی مقصد کے لئے میں نے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کو خط لکھا تھا کہ دونوں معزز ایوانوں پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی جائے جو وسیع تر، بنیادی اور موثر انتخابی اصلاحات کا ایک جامع نقشہ تجویز کرے۔ مجھے خوشی ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے 33ارکان پر مشتمل یہ کمیٹی قائم ہو چُکی ہے اور اِس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔

حکومت اس کمیٹی کی متفقہ سفارشات پر پورے صدقِ دل سے عمل کرے گی۔ اس مقصد کے لئے قانون بدلنا پڑا تو بدلیں گے۔ آئین میں ترمیم کرناپڑی تو کریں گے۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کا ڈھانچہ بدلنا پڑا تو بدلیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ نمائندہ کمیٹی پوری محنت اور لگن کے ساتھ کم از کم مدّت میں اپنا کام مکمل کرے گی۔ انشاء اللہ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو گااور ہماری آنے والی نسلیں بھی پارلیمنٹ کے اِس تاریخ سازکردار کو یاد رکھیں گی۔

انشاء اللہ 2018ءء کے انتخابات انہی اصلاحات کی روشنی میں ہوں گے۔وزیر اعظم نے کہاکہ ہم نے سیاسی جمہوری سفر کے دوران جتنی بھی اصلاحات کی ہیں، اُن سب کا سہرا عوامی نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کے سر رہا ہے۔آئندہ بھی ہر آئینی ترمیم اور ہر قانون سازی پارلیمنٹ ہی کرے گی۔اصلاحات کی منزل کو جانے والے سارے راستے پارلیمنٹ کے ایوانوں ہی سے گذریں گے۔

ہم نے آزادی بڑی قربانیوں سے حاصل کی ہے۔ ہم سب نے جمہوریت کے لئے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پارلیمنٹ ، پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس پارلیمنٹ کی موجودگی میں فیصلے سڑکوں، چوراہوں اور میدانوں میں کئے جانے لگیں۔ اللہ کے فضل سے اب یہاں کسی کی بادشاہت ہے نہ آمریت۔ بادشاہت سے ہم نے اڑسٹھ (68)برس پہلے نجات حاصل کر لی تھی ہمارا ایمان ہے اور ہمارے آئین میں بھی لکھا ہے کہ بادشاہی اور حاکمیت اعلی صرف اللہ تعالی کی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام اللہ کی اس حاکمیت کے نائب ہیں۔

یہ پارلیمنٹ عوام کے اِسی حق، اِسی اختیار اور اِسی بادشاہی کی نمائندگی کر تی ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ میں یہ واضح کر دوں کہ ہر سیاسی، آئینی، قانونی اور قومی معاملے میں اصلاح احوال کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ میں ملکی سیاسی قیادت کی مشاورت سے ہر طرح کے مذاکرات اور ہر قسم کی بات چیت کے لئے تیار ہوں۔ بعض محترم رہنماؤں کی پیش رفت پر میں نے کھلے دل کے ساتھ معاملات کو بات چیت سے حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور اُن کی تجاویز بھی تسلیم کر لیں۔

میں اب بھی ایسی ہر کوشش کو خوش آمدید کہوں گا۔ پاکستان کی سلامتی و استحکام اور اٹھارہ کروڑ عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے کسی انا کو رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ آئینی اور قانونی دائروں کے اندر رہتے ہوئے پُر امن احتجاج کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ میں یہ بات بھی واضح کردوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، ایک مہذب ریاست ہے۔

اپنا آئین ، اپنا قانون اور اپنا جمہوری نظام رکھنے والی ریاست ۔ انشاء اللہ ہم پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی حمایت سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئینی جمہوری تشخص پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ کسی کو انارکی پھیلانے اور آئینی بندوبست سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ جتھہ بندیوں کے ذریعے ریاستی نظام کو یرغمال بنا لے۔

کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ کھلے عام قتل و غارت گری کا درس دے۔ کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ مذہب کی آڑ میں لوگوں کو دوسروں کی گردنیں کاٹنے پر اُکسائے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے والی قوم کسی نئے عنوان سے فتنہ و فساد اور خانہ جنگی کی اجازت نہیں دے گی۔ کسی فسادی ٹولے کو یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ توانائی، انفراسٹکچر اور قومی خوشحالی و ترقی کے لئے شروع کئے گئے اربوں ڈالر کے منصوبوں کو کھنڈر بنا کر قوم کو پھر سے غربت اور پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیل دے۔

پاکستان کو ہم ایسا جنگل نہیں بننے دیں گے جہاں ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ کا قانون چلنے لگے۔ سڑکوں اور چوراہوں پر ہنگامہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کو کروڑوں عوام کا مینڈیٹ یرغمال نہیں بنانے دیں گے۔نواز شریف نے کہاکہ میں کچھ گذارشات میڈ یا کے دوستوں سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے میڈیا نے جمہوریت کی سربلندی ، اظہارِ رائے کی آزادی اور عدلیہ کی بحالی کے لئے تاریخ سازکردار ادا کیا ہے ۔

مقدس مشن کے لئے صحافیوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پور ی قوم ان کے اس کردار کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے__ لیکن میں اس موقع پر یہ گذارش کر نا چاہتا ہوں کہ میڈیا موجودہ سیاسی ہلچل کے حوالے سے اپنے کردار کا ضرور جائزہ لے۔ وہ خود فیصلہ کرے کے میڈیا کی آزادی کو کچھ عناصر اپنے پُر تشدد اور غیر آئینی ایجنڈے کے لئے تو استعمال نہیں کر رہے؟ مجھے یقین ہے کہ اچھی روایات رکھنے والا میڈیا عظیم قومی مقاصد کے لئے حقیقی معنوں میں ریاست کے چوتھے ستون کا کردار ادا کریگا۔

میرے عزیز اہل وطن میں اب آپ کے سامنے ایک نہایت ہی اہم بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ پوری قوم کی طر ح میں بھی بڑی حیرت اور افسوس کے ساتھ ایک خاص جماعت کی طرف نام نہاد دھاندلی کے الزامات سنتا رہا ہوں۔ اب کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر مسلسل دہرائے جانے والے ان الزامات کو بنیاد بنا کر پورے جمہوری نظام کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔

بے یقینی کی فضا پیدا کر کے ملک کی معیشت ، سیاسی استحکام اور عالمی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میرے سامنے آپ کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی و خوشحالی کا ایک واضح ایجنڈا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کسی طرح کی بد امنی اور انتشار اس ایجنڈے پر منفی اثر ڈالے۔ ملکی صورت حال کا جائزہ لینے اور قومی سیاسی قیادت کی اجتماعی سوچ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ انتخابات 2013ءء کے بارئے میں لگائے گئے الزامات کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک کمیشن قائم کیاجائے۔

اس مقصد کے لئے حکومت سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس صاحب کو ایک درخواست کر رہی ہے کہ و ہ عدالت عظمی کے تین جج صاحبان پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیں جو الزامات کی مکمل چھان بین کے بعد اپنی حتمی رائے دے مجھے یقین ہے کہ اس اقدام کے بعد کسی احتجاج کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی میں ایک بار پھر آپ کو یومِ آزادی کی پیشگی مبار ک باد پیش کرتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔