غیرت کے نام پر قتل کیخلاف سخت ترین قوانین کی تجویز سمری وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوا دی گئی ،

پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 311 میں تبدیلی کی جائے اجلاس میں پیش کر دہ تجاویز کا متن ‘عدالتیں جرم میں ’فساد فی الارض‘ کے ایکٹ کے تحت کسی قاتل کو سزا دے سکتی ہیں رپورٹ ‘حکومت غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی کریگی قانون میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے گا ، حکام

پیر 17 نومبر 2014 20:33

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17نومبر 2014ء) غیرت کے نام پر قتل کیخلاف سخت ترین قوانین کی تجویز پیش کر دی گئی یہ تجویز لاہور ہائی کورٹ کے سامنے رواں سال مئی میں فرزانہ نامی خاتون کی ہلاکت کے بعد ویمن ڈیویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے دی گئی ۔قوانین میں تبدیلی کیلئے ایک سمری وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی جس کے بعد سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

ذرائع کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی نے چند روز قبل ایک اجلاس کے دوران غیرت کے نام پر قتل کو سمجھوتے کے تحت ختم کیے جانے کے طریقہ کار کو ختم کرنے کے حوالے سے گفتگو کی تاہم اجلاس جس میں حکومتی اراکین، سول سوسائٹی کے ممبران اور مذہبی اسکالرز نے شرکت کی، کو آگاہ کیا گیا کہ اس پر مذہبی حلقوں کی جانب سے اعتراض کیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

1990 سے قبل اس جرم پر باہمی رضامندی کے تحت سمجھوتہ ممکن نہیں تھا تاہم بعد میں مذہبی اسکالرز اور اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کے بعد اسے تبدیل کردیا گیا۔ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اسلام قتل کے مقدمات میں سمجھوتے کی اجازت دیتا ہے اس لیے غیرت کے نام پر قتل کو قابل راضی جرم بنایا جائے۔ذرائع کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کے بعد اس ناقابل راضی جرم بنانے پر مذہبی حلقوں میں اعتراض اٹھایا جائے گا۔

ایک اور تجویز یہ دی گئی کہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 311 میں تبدیلی کی جائے جس کے تحت عدالتیں اس جرم میں ’فساد فی الارض‘ کے ایکٹ کے تحت کسی قاتل کو سزا دے سکتی ہیں، چاہیں ورثاء کسی سمجھوتے کے تحت قاتل کو معاف بھی کردیں۔تجویز میں کہا گیا کہ اس قانون کو ایسے معاف کیے جانے والے قاتلوں کے خلاف استعمال کیا جائے جن کا معافی میں بھی جرائم کا ریکارڈ ہو، یا جس نے سفاکانہ اور چونکادینے والا انداز قتل اپنایا ہو، یا پھر جو معاشرے کے لیے ممکنہ طور پر خطرہ ہو۔

سیکشن میں 2011 میں بھی ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت کچھ کیسز میں ورثاء کی جانب معافی ملنے کے بعد بھی قاتل کو عدالت عمر قید (25 سال)، 14 سال کی قید یا پھر موت کی سزا سنا سکتی ہے۔قانون کے تحت کسی بھی صورت میں ایسے کسی کیس میں دس سال سے کم جیل کی سزا نہیں ہونی چاہیے۔ذرائع نے بتایا کہ مذہبی اسکالرز پر مشتمل ایک سب کمیٹی 15 روز کے اندر اپنی تجاویز پیش کرے گی۔ایک آفیشل نے بتایا کہ حکومت غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی کرے گی اور قانون میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :