اسلام آباد کے شہری علاقوں میں سکیورٹی تجاوزات اور رکاوٹوں با رے سی ڈی اے سے 6 مارچ تک رپورٹ طلب

جمعہ 27 فروری 2015 14:42

اسلام آباد(اردپوائنٹ۔تازہ ترین اخبار ۔27 فروری 2015) سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے شہری علاقوں میں سکیورٹی کے نام پر قائم تجاوزات اور رکاوٹوں کے مقدمے میں سی ڈی اے سے 6 مارچ تک رپورٹ مانگ لی جبکہ سی ڈی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا ہے کہ دفتر خارجہ نے سفاتخانوں کو سکیورٹی کی وجہ سے قانون کے مطابق اقدامات کرنے کی اجازت دے دی ہے‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر سفارتخانے ہمارے قانون پر عمل کرتے ہوئے تجاوزات نہیں ہٹانا چاہتے تو سی ڈی اے کی طرف سے انہیں بتایا جائے کہ ہمارا دفتر خارجہ چاہتا ہے کہ آپ کے ممالک میں بھی سکیورٹی کے مسائل ہیں‘ پیرس اور نیویارک میں دہشت گردی ہورہی ہے اور کئی لوگ مارے گئے ہیں ہم بھی اپنے سفارتخانوں کے سامنے تجاوزات اور رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

سی ڈی اے کی رپورٹ سے تو یہی لگتا ہے کہ حکومت نے سفارتخانوں کا غیرقانونی مطالبہ مان لیا ہے۔ اگر تجاوزات کھڑی کرنا حکومت کیلئے قابل قبول ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں ہم تو ویسے بھی تجاوزات کے عادی ہوچکے ہیں جبکہ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب حکومت نے سفارتخانوں کو ڈپلومیٹک انکلیو میں پلاٹس دے دئیے ہیں تو وہاں کیوں منتقل کیوں نہیں ہوجاتے۔

ہمارے شہریوں کیلئے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ حافظ ایس اے رحمن وکیل پیش ہوئے اور بتایا کہ سی ڈی اے نے عوام الناس کیلئے کمپلینٹ سیل بناتے ہوئے ذمہ داروں کی ڈیوٹی لگادی گئی ہے‘ اخبارات میں اشتہارات بھی دے دئیے گئے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کو قانون کے مطابق کارروائی کرنا ہوگی۔

وکیل نے کہا کہ یقین دلاتے ہیں کہ اشتہار ضرور شائع ہوگا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اشتہار اردو میں بھی شائع کیا جائے۔ آپ نے ہمیں بتانا ہے کہ شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے آپ نے کام تو کردیا ہے۔ درخواستوں کی وصولی اور شفافیت کیساتھ ان پر عملدرآمد بارے بھی بتانا ہوگا۔ اس حوالے سے ٹریکنگ ریکارڈ بھی بنانا ہوگا۔ میرے پاس خطوں کے انبار لگ گئے ہیں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ جج کو سی ڈی اے میں لگادیا گیا ہے اور وہ سب تکلیفیں دور کررہے ہیں۔ اتنے خطوط آرہے ہیں کہ پڑھنے سے بھی قاصر ہوں۔ لوگوں کی شکایات دور کی جانی چاہئیں۔ بہت سے خطوط میں چیئرمین سی ڈی اے کی معرفت لکھ کر بھجوائے جارہے ہیں۔ سی ڈی اے کی ردی کی ٹوکریوں سے بھی بچائیں۔ سی ڈی اے وکیل نے بتایا کہ مختلف سفارتخانوں کے حکام سے وزارت خارجہ کی میٹنگز ہوئی ہیں۔

معروف افضل اور معین الحق نے ان میں شرکت کی ہے جس کا سفارتخانوں نے جواب دیا ہے کہ سکیورٹی معاملات ہیں جس کی وجہ سے ان رکاوٹوں کو نہیں ہٹایا جاسکتا۔ ڈنمارک کا سفارتخانہ پہلے بھی دہشت گردی کا شکار ہوا ہے اسلئے مسائل ہیں اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ سی ڈی اے نے قانون کیخلاف سفارتخانوں کا مطالبہ مان لیا ہے۔ سی ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ فریقین نے تمامتر معاملات سے اتفاق کیا ہے۔

تمامتر سفارتخانوں کا معاملہ میرٹ پر حل کیا جائے گا اور پرنسپل لینڈ کے غیر ضروری استعمال پر پابندی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہا کہ آپ یہ مان رہے ہیں کہ ہمارے ملک کی سکیورٹی صورتحال اتنی دگرگوں ہے کہ ہم ان کی غیرقانونی بات ماننے کو تیار ہیں۔ رولز آف بزنس کے تحت فارن مشنز کو ڈیل کیا ہے۔ سڑک بلاک کرنا آپ کے نزدیک قابل قبول ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔

آپ نے تو ان کو ڈپلومیٹک انکلیو میں پلاٹ الاٹ کردئیے ہیں۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ آپ ان کو ڈپلومیٹک انکلیو میں جانے کیلئے کیوں نہیں کہتے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت اگلے ہفتے تک کیلئے ملتوی کردی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پیرس میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہے اتنے لوگ مارے گئے۔ ہمارے سفارتخانوں کو بھی اجازت دے دیں۔ شانزے لیزے پر رکاوٹیں کھڑی کرنے دیں آپ کو وہ ایک انچ پر بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ہم تو ویسے بھی تجاوزات کے عادی ہیں۔

آپ فرنچ سفارتخانے کو بتلادیں کہ بھی آپ کے علاقے میں کنکریٹ بلاکس رکھنا چاہتے ہیں۔ تین سال کیلئے ان کو سی ڈی اے کی جانب سے کہہ دیں کہ ہمارا فارن آفس چاہتا ہے پیرس اور نیویارک میں تجاوزات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ حافظ ایس اے رحمن نے کہا کہ چیف پروٹوکول نے کہا کہ تجاوزات نہیں ہوں گی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پانچ سڑکوں پر تجاوزات رہ گئی ہیں ان کو بھی ختم کردیا جائے گا۔ مزید سماعت 6 مارچ تک ملتوی کردی گئی

متعلقہ عنوان :