گندم کی منڈی میں بگاڑ کے خاتمہ کیلئے جامع پالیسی بنائی جائے،سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین

جمعہ 1 مئی 2015 18:49

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم مئی۔2015ء)پاکستان بزنس اینڈ انٹلیکچولز فورم کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک کی سب سے اہم گندم کی منڈی میں بگاڑ کا واحد حل اسے ریگولیٹ کرنے میں ہے۔گندم اکثریت کی بنیادی غذااور کروڑوں کاشتکاروں کا زریعہ آمدن ہے جنکے مفادات کے تحفظ کیلئے ایڈہاک ازم کا خاتمہ کر کے زمینی حقائق کے مطابق بنائی گئی پالیسی کے تابع کیا جائے۔

مختلف سرکاری ادارے بینکوں سے بھاری سودپر قرضہ لے کر کسانوں سے گندم خریدتے ہیں۔ دو کروڑ ٹن کی ملکی ضرورت پوری ہونے کے بعد لاکھوں ٹن گندم بچ جاتی ہے جوبین الاقوامی منڈی سے تیس سے چالیس فیصد تک مہنگی ہونے کے سبب برامد نہیں کی جاسکتی اسلئے حکومت مجبوراً ایکسپورٹرز کو پانچ سے نو بزار روپے فی ٹن سبسڈی دے کر کچھ مقداربرامد کرواتی ہے۔

(جاری ہے)

مہنگی گندم خرید کر سستی بیچنے کی یہ رسم سالہا سال سے دہرائی جا رہی ہے جس سے ٹیکس گزاروں سے وصول کئے گئے اربوں روپے ڈوب جاتے ہیں جو فلاحی منصوبوں پر خرچ کئے جا سکتے ہیں۔اس وقت بھی بین االاقوامی منڈی میں فی من گندم کی قیمت پاکستان سے تین سو روپے کم ہے جسکی بوجھ عوام پر ہے۔میاں زاہد حسین نے فلور ملز مالکان کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک سابق حکومت نے ووٹ پکے کرنے کیلئے گندم کی امدادی قیمت میں ہوشربا اضافہ کیا جس سے کئی دیہی علاقوں میں زمین کی قیمت دگنی ہو گئی مگر ملک مہنگائی کے سیلاب میں ڈوب گیا جبکہ موجودہ حکومت نے گندم اور گندم سے تیار کی جانے والی اشیاء پر 25 فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد کر کے مستحسن اقدام کیا مگر غیر معیاری گندم کی درامد اور کاشتکاروں کے تحفظ کیلئے ڈیوٹی میں اضافہ ضروری ہے۔

گندم کی سپلائی چین میں سب سے اہم کاشتکار اور کنزیومر ہیں جنکا استحصال ویٹ پالیسی سے روکا جا سکتا ہے۔ جدید طریقوں سے زیر کاشت رقبہ بڑھائے بغیر پیداوار کوموجودہ ڈھائی کروڑ ٹن سے چارکروڑ ٹن تک بڑھایاجا سکتا ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی پندرہ سال میں پیداوار کو دس فیصد کم کر دیگی جبکہ آبادی خوفناک حد تک بڑھ چکی ہو گی جسکے لئے پالیسی سازوں کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔۔فلور ملز مالکان گندم سے بنائی جانے والی اشیاء میں ویلو ایڈیشن کرکے قیتمی زرمبادلہ کما ئیں۔