اگر حکومت نے ہفتے کے اندر مطالبات پر فوری عملدرآمد نہ کیا تو پورے پنجاب کو جام کر دیں گے،صدر پاکستان کسان اتحاد

کسان کی پیداواری لاگت بڑھ چکی ہے ،اجناس کا ریٹ انتہائی کم ہے، دو سے تین سالوں میں کسان سب سے زیادہ بدحال ہوئے ہیں بھارت سے ڈیوٹی فری زرعی اجناس منگوا کر ہم پر بھاری ٹیکس لگا کر بچوں کو بھوکا مارا جا رہا ہے، خالد محمود کھوکھر

جمعہ 2 اکتوبر 2015 22:49

اگر حکومت نے ہفتے کے اندر مطالبات پر فوری عملدرآمد نہ کیا تو پورے پنجاب ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 اکتوبر۔2015ء) پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ اگر حکومت نے ایک ہفتے کے اندر اندر ہمارے مطالبات پر فوری عملدرآمد نہ کیا تو کسان اتحاد اپنے احتجاج کا طریقہ کار بدلتے ہوئے پورے پنجاب کو جام کر دیں گے، اپنی ٹریکٹر ٹرالی سڑکوں پر لا کھڑی کریں گے، اس وقت کسان کی پیداواری لاگت بڑھ چکی ہے اور اجناس کا ریٹ انتہائی کم ہے، ان دو سے تین سالوں میں کسان سب سے زیادہ بدحال ہوئے ہیں، بھارت سے ڈیوٹی فری زرعی اجناس منگوا کر ہم پر بھاری ٹیکس لگا کر ہمارے بچوں کو بھوکا مارا جا رہا ہے، چاول کی پہلی فصل پڑی ہے جبکہ نئی فصل تیار ہے جس کو کوئی بھی حکومت ادارہ خریدنے کیلئے تیار نہیں، کسان کے پاس اس وقت کپاس کا بیج نہیں ہے، 15 ارب روپے کا ٹماٹر بھارت سے ایک سال میں امپورٹ کیا گیا، اگر حکومت بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دے تو ملک کو کوئی فرق نہیں پڑے گا جبکہ زرعی ترجیحات سے روگردانی کی گئی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی سیٹ پر بیٹھ کر وعدہ کر کے اسے نبھایا نہ جائے تو یہ پاکستان کی توہین ہے نہ کہ کسی ایک شخص کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زرعی پیکج نہ دے ہمیں صرف ڈیڑھ ارب زراعت کیلئے دے دے تو ہمیں کشکول توڑ دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بیرونی ملک کمرشل اتاثی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے ورنہ ہمارے ملک کے یہ حالات نہ ہوتے۔

ہمسایہ ملک بھارت سے ایک سال میں 15 ارب روپے کا ٹماٹر منگوایا گیا جس پر ڈیوٹی فری تھی جبکہ ہمارے کسانوں پر کھاد، پانی اور امدادی پیکج کی مد میں اتنے ٹیکس لگائے جاتے ہیں کہ پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور اجناس کا ریٹ انتہائی کم رہ جاتا ہے۔ انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات کے بیان پر کہ الیکشن کمیشن کی کن پٹی پر گن رکھوا کر فیصلہ کروایا گیا تو ایسے الیکشن کمیشن کو فوری مستعفی ہو جانا چاہئے اور اگر وفاقی وزیر نے غلط بیانی سے کام لیا ہے تو انہیں اپنی وزارت سے مستعفی ہو جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی سیٹ پر بیٹھ کر وعدہ کر کے اسے نبھایا نہ جانا کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ پاکستان کی بدنامی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پورے ملک میں شہریوں کی صحت کی خاطر کوئی ایسی لیب موجود نہیں جہاں ملکی و غیر ملکی زرعی اجناس کا ٹیسٹ کیا جا سکے کہ آیا یہ شہریوں کیلئے مضر صحت تو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت کی ترجیحات میں زراعت شامل نہیں جو قابل افسوس امر ہے کسان کی غربت کی آخری لکیر پر پہنچ چکے ہیں ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہمیں زرعی پیکیج نہ دیا جائے بلکہ جی ایس ٹی ختم کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ملک میں دو سال کے لئے زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 120 کلو آلو کی بوری 7 سے 8 سو روپے میں کسان سے خریدی جاتی ہے جبکہ اس وقت ملک میں فی کلو آلو کی قیمت 40 سے 60 روپے فی کلو ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں سیاسی حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی ہر کوئی اپنی اپنی ذات کے لئے لڑ رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آڑھتی سسٹم ختم کیا جائے یا اس کے لئے قانون سازی کی جائے جو مہنگائی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میری 22 سالہ زرعی زندگی میں پہلی بار میں اپنے آپ کو لاوارث محسوس کر رہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کسان اتحاد ،کسانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے اور چھوٹے کسانوں کی نما ئندگی کرتی ہے۔

جوزراعت میں حکومتی ترجیحات کو شامل کرانے میں کوشاں ہے کیونکہ اس وقت کسان کی پیداواری لاگت بڑھ چکی ہے اور اجناس کا ریٹ انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے کسان مسلسل خسارے میں جا رہا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ چھوٹے کسا ن اکٹھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس جون 2014ء میں حکومت نے بجٹ اجلاس میں فاسفیٹ اور پوٹاش کھادوں پر 14 ارب سبسڈی دینے کا اعلان کیا تھا جس کی ٹی وی اور ا خبارات پر بے پناہ تشہیر کی گئی ،مگر یہ سبسڈی آج تک نہ دی گئی۔

5000 روپے فی ایکڑ دھان پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا تھا جو آج تک نہ دیا گیا۔ روئی کی خریداری TCP کے ذریعہ کروانے اور کپاس کا ریٹ 3000مقرر کرنے کا اعلان کیا مگر اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوا۔ زرعی مداخلت پر GST کے خاتمہ کا وعدہ کیا گیا مگر وہ بھی وفا نہ ہوا۔ بھارت سے ڈیوٹی فری زرعی اجناس بند کرنے کا وعدہ بھی پورا نہ ہوا۔آج کسان کپاس پر 40000 روپے فی ایکڑ نقصان برداشت کر رہا ہے، چاول پر 20000 روپے فی ایکڑ اور گنے کی ادائیگی شوگر مل مالکان روک کے بیٹھے ہوئے ہیں، کسان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔

اس بھوک سے تنگ آکر مجبور کسان نے اسلام آباد پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا ، بعدازاں 3 دن لاہور مال روڈ پر بھوکے پیاسے دھوپ میں بیٹھے رہے۔ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم 20 کروڑ پاکستانی عوام کے لئے غلہ پیدا کرتے ہیں ،ہم دودھ، گوشت، سبزیاں اور پھل اُگا کر دیتے ہیں ، لیکن کسان کے بچے کو حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث پھل اور گوشت میسر نہیں ہوتا، اب دو سال بعد سوئی ہوئی حکومت جاگی اور کسان کا خیال آیا تواس جمہوریت نے ہم سے یہ حق بھی چھین لیا۔

کسان کو اس جمہوریت سے نفرت ہوتی جارہی ہے۔ جس کسان کا 40000 روپے کا نقصان ہو اسے 5000 روپے فی ایکڑ سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ چیف الیکشن کمیشنر سے درخواست کرتے ہیں کہ اس ملک کی 70% فیصد آبادی کو الیکشن کی نہیں روٹی کی ضرورت ہے، آپ کو کیا پتہ کہ بھوک کیا ہوتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا ریلیف پیکج 341 ارب کا نہیں بلکہ41 ارب کاہے جو ہماری سمجھ میں آیا باقی سب وفاقی وزیرخزانہ کی ہاتھ کی صفائی ہے۔

کسان پیکیج کے اعلان سے ایک ہفتہ قبل گیس کی قیمتوں میں 63 فیصد اضافہ کیا گیا جس سے یوریا کا ریٹ 200 روپے فی بوری سے بڑھ کر 2000روپے ہو گیا۔ اس اضافے کی واپسی کا اعلان کیا گیا مگر پورا نہ کیاگیا۔ اس اضافہ سے کسان کی جیب سے حکومت کو 40 ارب روپے جارہے ہیں۔ ہمارے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج پر 20 ارب/ 500 روپے فی بوری DAP کھاد پر دینے کا اعلان کیا گیا مگر5 ماہ گزرنے کے باوجود پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔

نئی فصل کی کاشت شروع ہوچکی ہے اور اس سبسڈی کے اعلان کی وجہ سے DAP کا بحران پیدا ہوچکا ہے اس وقت مارکیٹ میں کھاد کا بحران ہے جو کہ ایک ہفتہ میں مزید شدت اختیار کر جائے گا۔کھاد ڈیلر حضرات کی دکانوں پر موجود نہیں۔ حکومت 20 ارب روپے سبسڈی دے کر کسانوں پر کوئی احسان نہیں کررہی جبکہ حقیقت میں ہم کسان حکومت کو ٹیکسز کی مد میں 24 ارب روپے۔ فاسفیٹ ،پوٹاش کھادوں یعنی DAP پر 600 روپے اور 44 ارب روپے یوریا پر یعنی 400 روپے فی بوری دے رہے ہیں۔

واضع رہے کہ ہر سال گندم کی کاشت کے لئے ستمبر سے پہلے فاسفیٹ کھادوں کا سٹاک موجود ہونا چاہئے جو تاحال نہیں اور اس سے اس سال کی فصل بھی تباہ ہونے کا اندیشہ ہے۔(۱)2 دن میں سبسڈی کے فیصلے کو نافذکیاجائے تاکہ کسان کھاد خرید سکیں۔ (۲) اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے وزیراعظم یوریا کا ریٹ یکم ستمبر کی قیمت پر واپس لائیں۔ (۳) ہماری ان پٹ پر تمام قسم کے ٹیکسز ختم کئے جائیں۔ ہم قومی قائدین سے درخواست کر تے ہیں کہ سیاسی دشمنیوں کو ایک طرف رکھ کر کروڑوں کسانوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں فاقہ کشی سے بچائیں ورنہ یہ ننگے بھوکے کسان اپنے اہل عیال سمیت تادم مرگ انتہائی اقدامات اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔

متعلقہ عنوان :