پاکستانیوں کی 5فی صد آبادی جلدی امراض میں مبتلاہے ، دنیا بھر میں اس وقت اس جلدی بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد 125 ملین سے زائد ہے ،سورائسز کا مرض ترقی پذیر ممالک میں 20سے 50فی صد تک پھیلا ہوا ہے، جلدی مرض کے بارے میں آگہی کی شرح نہایت کم ہے ، سورائسز کے 5,000مریض ہیں ، ان میں سے12فی صد مرد اور 20فی صد خواتین ہیں

جلدی امراض کے ماہرین اکٹر منیزہ رضوان ،ڈاکٹر آفاق احمد ،ڈاکٹر عظمیٰ علی کی میڈیا کو پریس بریفنگ

جمعرات 29 اکتوبر 2015 18:58

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 اکتوبر۔2015ء ) جلدی امراض کے ماہرین نے کہاہے کہ پاکستانیوں کی 5فی صد کے قریب تعداد اس مرض سے متاثر ہے جب کہ دنیا بھر میں اس وقت اس جلدی بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد 125 ملین سے زائد ہے ،سورائسز کا مرض ترقی پذیر ممالک میں 20سے 50فی صد تک پھیلا ہوا ہے، اس جلدی مرض کے بارے میں آگہی کی شرح نہایت کم ہے۔

سورائسز کے 5,000مریضوں میں سے12فی صد مردوں کی نسبت 20فی صد خواتین نے یہ کہا ہے کہ اس مرض نے ان کی روزمرہ زندگی میں بہت زیادہ مسائل پیدا کئے ہیں۔ علاوہ ازیں،52فی صد مردوں کی نسبت تقریباً 60 فی صد خواتین نے کہا ہے کہ سورائسز ان کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کی اہلیت میں مداخلت کرتا ہے۔ مجموعی طور پر، خواتین کو سورائسز کے لاحق ہونے سے پید ا ہونے والے نفسیاتی اور سماجی مسائل سے نمٹنے میں نسبتاً زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو ما ہرین امراض جلد ڈاکٹر منیزہ رضوان ،ڈاکٹر آفاق احمد ،ڈاکٹر عظمیٰ علی نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ ایک ایسے وقت میں جب کی جلدی بیماری سورائسز کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، پاکستانیوں کی 5فی صد کے قریب تعداد اس مرض سے متاثر ہے جب کہ دنیا بھر میں اس وقت اس جلدی بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد 125 ملین سے زائد ہے۔ اس بات کا انکشاف تجربہ کار ماہرین امراض جلد نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک بریفنگ میں کیا۔

پی اے ایف اسپتال کے متعلقہ شعبے کی سربراہ ، ماہر امراض جلد اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر منیزہ رضوان نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ سورائسز نہ صرف جلد کے خلیوں کی زندگی کے دائرے کو تبدیل کر دیتا ہے بلکہ یہ جلد ہی جلد کے سطح پر اپنے خلیے پیدا کر لیتا ہے۔ جلد کے اضافی خلیے موٹی، سلور رنگ کے نشانات اور خارش زدہ، خشک ، سرخ رنگ کے دھبے پیدا کر دیتے ہیں جو کبھی کبھار بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

سورائسز ایک مستقل اور دائمی مرض ہے۔انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ جلد کی تمام بیماریوں پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ جلد کے امراض عموماً زندگی کے لئے خطر ہ نہیں ہوتے لیکن ان کے جسمانی اثر کے نتیجے میں، خصوصاً خواتین ، اکثر ذہنی دباؤ، مایوسی اور شرمندگی کا شکار ہوجاتی ہیں۔پمز کے ایک تجربہ کار ماہر جلد، ڈاکٹر آفاق احمد نے کہا کہ اس امر کے باوجود کے سورائسز کا مرض ترقی پذیر ممالک میں 20سے 50فی صد تک پھیلا ہوا ہے، اس جلدی مرض کے بارے میں آگہی کی شرح نہایت کم ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ عام آبادی کی نسبت اس جلدی مرض کے مریضوں میں جلدی امراض قلب لاحق ہونے کی وجہ سے بہت سی اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سورائسزکے مرض میں بازوؤں، کمر، سینے، کہنیوں، ٹانگوں، ناخنوں، کولہوں اور کھوپڑی کے درمیان جسم کے مڑنے والے حصوں میں مردہ جلد کے سرخ دھبے پیدا ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہاہلکے، درمیانے اور شدید سمیت، شدت کے حوالے سے سورائسز کو تین درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

بچپن میں سورائسز لاحق ہوجانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایک تہائی سے زائد مریضوں کی تعدادکی عمر 18 سال سے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمی ہوئی تہہ قسم کا سورائسز بچوں میں زیادہ عام ہے۔ انہوں نے کہا کچھ اسٹیڈیز یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بچپن کے موٹاپے اور سورائسز کے درمیان ربط ہے۔ تاہم، طبی شعبے سے تعلق رکھنے والوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ مرض کی ایک جینیاتی بنیاد ہے کیوں کہ 23.4سے 71فی صد مریض بچوں کی مرض کے بارے میں خاندانی تاریخ موجود ہے۔

کچھ کیسوں میں اگر والدین کو سورائسز نہیں بھی ہے، تب بھی بچے اس مرض کو دادا/ دادی یا نانا / نانی سے اپنا لیتے ہیں۔سی ڈی اے اسپتال کی ماہر جلد، ڈاکٹر عظمیٰ علی نے کہا کہ سورائسزکی مختلف اقسام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ کیسوں میں جلدی امراض ایسے مریضوں کی لئے سماجی بدنامی کا باعث بنتے ہیں جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ طبی برادری ان کی زندگی پراس مرض کے پڑنے والے اثرات کو کمزور کر رہی ہے۔

مریض اکثر گوشہ تنہائی اپنا لیتے ہیں اور ان میں دماغی صحت کے مسائل پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ شدید قسم کے کچھ کیسز میں، مریض خود کشی کرنے کے بارے میں سوچناشروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان سورائسز فاؤنڈیشن کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک سروے کے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ سورائسز کے 5,000مریضوں میں سے12فی صد مردوں کی نسبت 20فی صد خواتین نے یہ کہا ہے کہ اس مرض نے ان کی روزمرہ زندگی میں بہت زیادہ مسائل پیدا کئے ہیں۔

علاوہ ازیں،52فی صد مردوں کی نسبت تقریباً 60 فی صد خواتین نے کہا ہے کہ سورائسز ان کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کی اہلیت میں مداخلت کرتا ہے۔ مجموعی طور پر، خواتین کو سورائسز کے لاحق ہونے سے پید ا ہونے والے نفسیاتی اور سماجی مسائل سے نمٹنے میں نسبتاً زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔مردوں کی نسبت خواتین کا سورائسزکے سلسلے میں بے چینی، ذہنی دباؤ، غصے، مایوسی، شرمندگی اور بے کسی کی جانب زیادہ جھکاؤ ہے۔

لہٰذا ڈاکٹرز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس مرض سے خاندان کے ارکان اور دوستوں کی آگہی ان کی حالت کو سمجھنے میں انتہائی اہمیت کی حامل اور مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ اسٹیڈیز میں رپورٹ کیا گیا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین کو سورائسزکے تجربے سے گزرنے میں زیادہ بے چینی لاحق ہوتی ہے لہٰذا ان کا زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ عنوان :