حکمرانوں ترجیحات میٹرو اور اورنج ٹرین ‘تعلیمی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے 20فیصد سے زائد بچے سکول نہیں جاپاتے

جمعہ 18 دسمبر 2015 13:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین ۔۔ آئی پی اے ۔۔18 دسمبر۔2015ء)پاکستان کے حکمران ایک طرف تو صحت ‘تعلیم ‘بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے مختص بجٹ میٹرو اور اورنج ٹرین بنانے پر خرچ کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب ملک میں 20فیصد کے قریب بچوں کے لیے سکول اور دیگر تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیں صوبہ پنجاب کی ”گڈگورنس فیم“حکومت سرکاری سکولوں کی تعداد بڑھانے اور پہلے سے موجود سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کی جانے والی آمدن کو غیرضروری منصوبوں پر خرچ کرکے اپنی نااہلی پر مہرتصدیق ثبت کررہی ہے صوبائی دارالحکومت لاہور میں 2012میں اربوں روپے کی لاگت سے تعمیرکی جانے والی شاہراہ ملتان روڈکو تین سال کے بعد دوبارہ توڑا جارہا ہے جبکہ وزیراعظم نوازشریف یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ ناقدین کو ان کے ”وژن“کی سمجھ نہیں پنجاب حکومت پہلے ہی صحت اور تعلیم جیسے شعبوں کے لیے مختص بجٹ کو اورنج ٹرین میں ڈال چکی ہے حتی کہ پینے کے پانی کی سکیموں تک کا بجٹ اورنج ٹرین کی نذرہوچکا ہے‘نجی تعلیمی مافیا کے سرپرست اقتدارکے ایوانوں میں ہونے کی وجہ سے سرکاری سکولوں کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ غریب والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں پڑھانے سے معذور ہیں پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق چھ سے 16 سال کی عمر کے 20 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے جبکہ آزادذرائع کا کہنا ہے کہ اصل میں یہ تعداد تنظیم کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

’اثر’ کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2015 کے مطابق ان میں سے کبھی بھی سکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 14 فیصد اور مختلف وجوہات کی بناء پر سکول چھوڑنے والے بچوں کی شرح 6 فیصد تھی۔یہ سروے پاکستان کے تقریبا 150 دیہی اور 21 شہری حلقوں میں کیا گیا جس میں چھ سے 16 سال کی عمروں کے دو لاکھ 20 ہزار سے زیادہ بچوں کی زبان (اردو، سندھی، پشتو) سمیت انگریزی اور ریاضی میں مہارت کے حوالے سے جائزہ لیا گیا۔

رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں پرائمری سکولوں میں داخلوں کی شرح سب سے کم رہی۔صوبے میں تعلیم کی دگرگوں حالت پر بات کرتے ہوئے ’اثر‘ کی کارکن بیلا رضا جمیل نے کہا کہ صوبے میں اب بھی اچھی حکمرانی کے بہت سے مسائل ہیں اور اب بھی وہاں جاگیرداری نظام پایا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اب بھی سندھ میں سکولوں کی حالت بہتر بنانے اور اساتذہ کو لانے کی ضرورت پر زور نہیں دیا جا رہا۔

رپورٹ کہتی ہے کہ ویسے توسرکاری سکولوں کی نسبت نجی سکولوں میں طلباء کی کارکردگی بہتر رہی لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ والدین نینجی سکولوں میں پڑھنے والے پانچ فیصد بچوں کو وہاں نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کروایا۔اس کے علاوہ 2015 میں سرکاری سکولوں میں چھ سے 16 سال عمر کے بچوں کے داخلوں کی شرح میں بھی چھ فیصد اضافہ ہوا۔رپورٹ کے مطابق 2015 میں لڑکیوں کے سکولوں میں داخلے کی شرح میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیر اور غریب کے فرق سے قطع نظر دونوں طبقات میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کا رجحان کم ہی پایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں مدرسہ کلچر کی وجہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ تعلیم دینی ہے۔ سکولوں میں طلبا کی تعداد کم اور مدرسوں میں بڑھ رہی ہے۔ مدرسے میں بچوں کو روٹی ملتی ہے اس لیے لوگ اپنے بچوں کو مدرسوں میں ڈال دیتے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان پچھلے پندرہ سالوں میں اقوام متحدہ کے اْن آٹھ اہداف کو حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے جو ملینیئم ڈیویلپمنٹ گولز کے تحت تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے طے کیے گئے تھے۔

ان اہداف میں ایک بنیادی ہدف پرائمری تعلیم تھی۔آئندہ 15 برسوں کے لیے اقوام متحدہ کے طے کردہ اہداف کے حصول کے لیے حکومت کتنی سنجیدہ ہے اور کیا منصوبہ بندی کر رہی ہے، اس سوال پر وفاقی وزیر بلیغ الرحمان بولے کہ ’ان اہداف کو قومی اہداف قرار دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تاثر ختم کرنا ہے کہ یہ کوئی غیرملکی ایجنڈا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ایجنڈا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’وفاق اور تمام صوبے اپنے بجٹ کا خاطر خواہ حصہ تعلیم پر خرچ کررہے ہیں اور ہم طے کرچکے ہیں کہ نئے اہداف کو بھر پور طریقے سے حاصل کرنا ہے۔