پاکستانی نوجوانوں میں غیر روایتی پیشے اپنانے کا بڑھتا ہوا رجحان

DW ڈی ڈبلیو اتوار 28 اپریل 2024 12:40

پاکستانی نوجوانوں میں غیر روایتی پیشے اپنانے کا بڑھتا ہوا رجحان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 اپریل 2024ء) ماضی میں پاکستانی افرادی قوت میں ذریعہ معاش کے طور پر روایتی پیشے اپنانے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ تب زیادہ تر زرعی معیشت والے اس ملک میں عام کارکنوں کا پیشہ زراعت ہوتا تھا، نوجوان فوج یا پولیس میں بھرتی ہو جاتے تھے، کوئی سرکاری ملازمت کر لیتے تھے یا پھر اپنا کوئی کاروبار شروع کر لیتے تھے۔

پھر جدید ٹیکنالوجی کے اقتصادیات پر اثرات اور انٹرنیٹ کی آمد کے بعد دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نئی افرادی قوت کی پیشہ وارانہ ترجیحات بدلنے لگیں، روزگار کے انتخاب میں جدت پسندی نظر آنے لگی اور پیشہ وارانہ خدمات کا شعبہ بھی پھیلنے لگا۔ یو‌ں ایسے غیر روایتی پیشوں کی طرف جھکاؤ بھی نظر آنے لگا، جو ڈیجیٹل اکانومی کی وجہ سے ممکن ہوئے۔

(جاری ہے)

عالمی سطح پر اقتصادی شعبے میں مختلف ممالک میں کارکنوں کی ترجیحات اور سینکڑوں معاشی شعبوں میں ان کی کھپت اور تناسب کے بارے میں تحقیق کرنے والے پلیٹ فارم سٹیٹسٹا ڈاٹ کوم کے سن دو ہزار اکیس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا 38 فیصد کارکن زرعی شعبے میں کام کرتے تھے۔ صنعتی شعبے میں کام کرنے والے پاکستانی کارکنوں کا تناسب قریب پچیس فیصد تھا جبکہ سینتیس فیصد کارکن پیشہ وارانہ خدمات یا سروسز کے شعبے میں کام کرتے تھے۔

سروسز کے شعبے میں کام کرنے والے پاکستانی کارکنوں، خاص کر نوجوانوں کی تعداد گزشتہ چند برسوں میں اس لیے بہت زیادہ ہو گئی ہے کہ ڈیجیٹل اکانومی اور آن لائن بزنس کے رجحان نے بھی بے شمار نئے معاشی امکانات پیدا کیے ہیں۔

یوم نوجوان: پاکستانی نوجوانوں کے مسائل

ماہرین اس حوالے سے خاص طور پر آن لائن ٹریڈنگ، غیر ملکی کمپنیوں کے لیے کام کرنے والے کال سینٹرز، ڈیجیٹل لرننگ، ڈیزائننگ، فوڈ ڈلیوری، اوبر اور کریم جیسی لوکل ٹریول ایپس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر پروگرامنگ جیسے شعبوں کی مثالیں دیتے ہیں، جن کا انتخاب کرنے والوں میں بہت بڑی اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔

بین الاقومی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے جاری کردہ گزشتہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح قریب آٹھ فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں قریب انیس ملین بالغ شہری بے روزگار ہیں۔

پاکستان میں غیر روایتی پیشے اس لیے بھی زیادہ پسند کیے جا رہے ہیں کہ نوجوان، تعلیم یافتہ اور بہتر اقتصادی مستقبل کے خواہش مند افراد کے لیے کم لاگت اور لچک دار اوقات کار والی ایسی ملازمتیں کرنا یا اپنا کوئی کام شروع کرنا زیادہ آسان ہو چکا ہے، جن کا تعلق انٹرنیٹ معیشت یا آن لائن سروسز سے ہو۔

اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے جب اسلام آباد کی ڈیفنس سوسائٹی کے رہائشی فیصل حسین کے ساتھ گفتگو کی تو انہوں نے بتایا، ''میں نے گریجویشن کے بعد سے ملازمت کے لیے بہت بھاگ دوڑ کی۔ پھر ایک عرصے تک ایک دوا ساز کمپنی میں بطور سپروائزر کام بھی کیا۔ میری تنخواہ قریب ایک لاکھ روپے تھی مگر گزر بسر پھر بھی مشکل سے ہوتی تھی۔ پھر قریب تین سال پہلے میں نے اپنا فروزن فوڈ بزنس شروع کیا۔

کباب، سموسے، کوفتے اور کئی دیگر فوڈ آئٹمز گھر پر تیار کرنا شروع کیں۔ ساتھ میں نے کچھ ہیلپر بھی رکھ لیے۔ یوں میں نے ان فروزن فوڈ آئٹمز کی ہوم ڈلیوری شروع کی۔ اب میں ماہانہ لاکھوں روپے کماتا ہوں۔‘‘

صوبہ پنجاب میں نارنگ منڈی کے چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھنے والی فیشن ڈیزائنر جویریہ انجم ورک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب پاکستان میں نوجوان لڑکیوں میں ایک بڑا رجحان منفرد ملبوسات کے اپنے برانڈ متعارف کرانے کا ہے۔

ان کے مطابق اسی رجحان کے نتیجے میں اب شوشل میڈیا پر تقریبا ہر روز ایک نیا برانڈ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان خواتین میں بیوٹی پارلر کے ذاتی بزنس کی طرف جھکاؤ بھی عروج پر ہے۔

جویریہ ورک کے مطابق، ''میں نے کچھ عرصہ ایک اسکول میں بیس ہزار روپے ماہانہ پر ملازمت کی۔ پھر جویریہ ورک آفیشل کے نام سے ملبوسات کا اپنا بزنس شروع کیا، جو اب کافی ترقی کر چکا ہے۔

میں بیرون ملک بھی اپنے کام کی کئی نمائشیں کر چکی ہوں۔ دو سال پہلے میں نے اپنا ایک نیا برانڈ رنگش بھی لانچ کیا تھا۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بزنس سے تیس سے چالیس ہزار روپے تک روزانہ کما لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اس موضوع پر کئی ورکشاپس بھی کروا چکی ہیں کہ گریجویٹ لڑکیاں کس طرح اپنے بزنس شروع کر سکتی ہیں۔

پاکستانی نوجوان غیرقانونی طریقے سے باہر جانے پر مجبور کیوں؟

گزشتہ دو سال سے گیمز ڈویلپر کے طور پر کام کرنے والے راولپنڈی کے رہائشی حمزہ رضا نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''پاکستان میں آج کل گریجویشن کے بعد جب ملازمت تلاش کی جائے، تو کہیں نوکری نہیں ملتی۔

اس لیے میں نے گیمز اینڈ گرافک ڈیزائنگ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فری لانسنگ شروع کر دی۔ ویڈیو ڈویلپنگ، گرافک ڈیزائننگ اور ویب ڈویلپنگ کے کچھ ایڈیشنل کورس کیے تو مجھے مزید پروجیکٹ ملنا شروع ہو گئے، اب میرا اچھا گزارہ ہو جاتا ہے۔‘‘

اسلام آباد میں نیشنل ووکیشنل اینڈ ایجوکیشن ٹریننگ کمیشن NAVTTC)) کی چیئر پرسن گلمینہ بلال احمد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ تفصیلی گفتگو میں بتایا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاب سسٹم کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں اس کی ضرورت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ سرکاری شعبے میں تو ملازمتوں کے نئے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

گلمینہ بلال کے بقول، ''ہمارے ایجوکیشنل ٹریننگ سینٹر میں چھپن ہزار سیٹیں تھیں۔ جب ان کے لیے اشتہار دیا گیا، تو پانچ لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں۔ سب سے زیادہ درخواست دہندگان کا تعلق انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے تھا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ نوجوان روایتی شعبوں کو چھوڑ کر غیر روایتی جاب سیکٹرز اور سروسز کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لیے کہ اگر کوئی سرکاری ملازمت نہ بھی ملے تو وہ ڈیجیٹل اکانومی میں کہیں نہ کہیں پروفیشنل سروسز میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں۔‘‘

نیشنل ایجوکیشن ٹریننگ کمیشن کی چیئر پرسن نے بتایا کہ آج کے پاکستانی نوجوان کوئی ایسا غیر روایتی ہنر سیکھنا چاہتے ہیں، جس کی مدد سے وہ اپنا کوئی کام یا بزنس شروع کر کے بہتر آمدنی حاصل کر سکیں۔

ملکی حالات: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور

انہوں نے کہا، ''بے روزگاری کو عموما صرف مردوں کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مردوں، خواتین، ٹرانس جینڈر افراد اور سپیشل پرسنز سمیت ہر کسی کا مسئلہ ہے جسے حل کیا جانا چاہیے۔‘‘

گلمینہ بلال نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا، ''ہم نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کے لیے ایک پروجیکٹ لانچ کیا، ''شی فکسز‘‘ (یعنی وہ ٹھیک کر دے گی)۔

مقصد یہ تھا کہ چونکہ ہمارے ہاں پدرشاہی معاشرتی رویوں کے باعث چند شعبے صرف مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ہیں، جیسے پلمبنگ، کارپینٹنگ، سکیورٹی گارڈ، الیکٹریشن اور جم ٹرینر وغیرہ۔ تو ہم نے ان شعبوں میں خواتین کو نہ صرف ٹریننگ دینے کا سلسلہ شروع کیا بلکہ ساتھ ساتھ انہیں ایڈیشنل مارکیٹنگ بھی سکھائی جا رہی ہے۔ حتمی مقصد یہ ہے کہ بہت چھوٹے پیمانے پر لیکن اپنا ذاتی کام یا بزنس شروع کرنے کی سوچ کو رواج دیا جائے۔‘‘