اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کو لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کے سامنے قانونی رائے لینے کیلئے پیش کیا جائے،اسلامی نظریاتی کونسل مؤثر انداز میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں، بندوق اٹھانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے

اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے تمام فرقوں کو اکٹھا کرکے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا رہا ہے، اراکین سینیٹ کا اسلامی نظریاتی کونسل کی سالانہ رپورٹ پر اظہار خیال

منگل 12 جنوری 2016 22:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 جنوری۔2016ء) اراکین سینیٹ نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کو لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کے سامنے قانونی رائے لینے کیلئے پیش کیا جائے،اسلامی نظریاتی کونسل مؤثر انداز میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے اسے تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں، بندوق اٹھانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے تمام فرقوں کو اکٹھا کرکے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سالانہ رپورٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ نظریاتی کونسل آئین کے تحت مسلسل کام اور اپنی سفارشات اور رپورٹس تیار کرتی رہے گی۔ ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے حوالے سے فیصلہ سازی ایوان کا کام ہے، یہ آئینی ادارہ ہے، اسے کی کسی بھی لحاظ سے بے وقعت کرنا مناسب نہیں، اس معاملہ کو کمیٹی میں بھیجنے کی ضرورت نہیں۔

(جاری ہے)

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے تفصیلی رپورٹ 7 سال میں دی ہے، یہ ہر سال اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے، اسے کام جاری رکھنا چاہئے۔ قائد حزب اختلاف اعتراز احسن نے کہا کہ ایوان میں اسلام کے حوالہ سے کوئی متنازعہ بات نہیں کی گئی بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار پر بحث کی گئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل آئین کا حصہ ہے اور آئین نے اسے جنم دیا ہے، نظریاتی کونسل اور اس سے متعلق آئینی شقیں جائزہ کیلئے وزارت قانون و انصاف کو بھیجنے میں کوئی حرج نہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے اسلامی نظریاتی کونسل کی آئینی حیثیت اور اس کی پیش کردہ سالانہ رپورٹ پر متعدد سوالات اٹھائے اور تجویز پیش کی کہ اس مسئلے کو لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کے سامنے اس پر قانونی رائے لینے کیلئے پیش کیا جائے۔ 2011-12ء کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ دسمبر1996ء میں حتمی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اب اس بات کی ضرورت نہیں رہی کہ پارلیمنٹ میں سالانہ رپورٹ پیش کی جائے تاہم کونسل نے یکطرفہ طور پر فیصلہ کیا کہ وہ یہ سالانہ رپورٹ روائتی طور پر پارلیمنٹ میں پیش کر دی جائیگی حالانکہ نہ تو یہ بات آئینی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ نے کونسل سے رپورٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ کونسل کی جانب سے رپورٹ پیش کرنا آئینی تقاضا نہیں اور کونسل صرف ایک مشاورتی ادارہ ہے، نہ کونسل کوئی قانون بنا سکتی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کے بنائے گئے کسی قانون کو ختم کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کسی بھی قانون کا تجزیہ کرسکتی ہے اور یہ بتا سکتی ہے کہ اسلامی ہے کہ نہیں ہے۔ تاہم اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ اختیار نہیں اور نہ ہی اس کی اب کوئی آئینی حیثیت رہ گئی ہے۔

2008ء میں کونسل نے خود کہا تھا کہ 90فیصد قوانین اسلام کے مطابق ہیں اور صرف 10فیصد قوانین پر پارلیمنٹ نظرثانی کر سکتی ہے اس لئے اب پارلیمنٹ کا ہی اختیار ہے کہ وہ 10فیصد قوانین پر نظرثانی کرے اور اس ضمن میں اسلامی نظریاتی کونسل کا کوئی سروکار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بہت زیادہ متنازعہ فیصلے کئے ہیں جس کی مثال یہ ہے کہ ضعیف لوگوں کے لئے گھروں کے قیام کو یہ کہہ کر کونسل نے مسترد کر دیا کہ یہ معاشرے کی روایات کے خلاف ہے، 2006ء کا خواتین کے تحفظ کا بل بھی مسترد کر دیا اور یہ بات بھی کی کہ زنا کے مقدمات میں DNAٹیسٹ کے رزلت بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں پیش کئے جا سکتے۔

کچھ عرصہ پہلے کونسل نے ایک قرارداد منظور کی کہ توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی جائے گی تاہم بعد میں اس مجوزہ قرارداد کو مسترد کر دیا۔ مارچ 2014ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بچوں کی شادی پر پابندی کو غیراسلامی قرار دے دیا۔ 1978ء میں کونسل نے سفارش کی تھی کہ پاکستان کے جھنڈے پر کلمہ طیبہ اور اﷲ اکبر لکھا جائے تاکہ لوگوں میں شہادت اور جہاد کا جذبہ پیدا ہو۔

یہ حیرت کی بات نہیں کہ یہی چیزیں طالبان کے جھنڈے پر موجود ہیں اور وہ جہاد کے نام پر جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب کو معلوم ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ اس قسم کی سفارشات ظاہر کرتی ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کتنی خطرناک حد تک قدامت پسند ہے اور وقت کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ لاء اینڈجسٹس کمیٹی ان تمام امور کا جائزہ لے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی آئینی اور قانونی حیثیت کا جائزہ لے۔

اعظم سواتی اور کریم خواجہ نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں معیشت، معاشرتی اصلاحات کی تفصیل موجود ہے، تائید کرتا ہوں کہ اس کو لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کو بھیجا جائے تاکہ اس پر تفصیلی غور کیا جا سکے۔ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا ہے کہ اگر ہم اسلامی نظریاتی کونسل کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو اس کی ری سٹرکچرنگ کرنی چاہئے، اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں مختلف خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کا کام سفارشات پیش کرنا ہے، ان پر قانون سازی ایوان کا حق ہے۔

حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کی جائے، اسلامی نظریاتی کونسل نے اقلیتوں، خواتین اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے مثبت اور ٹھوس تجاویز دی ہیں جس پر عملدرآمد ضروری ہے۔ چوہدری تنویر نے کہا کہ دین سے دوری کی وجہ سے مسلمان مسائل کا شکار ہیں، مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کیلئے ان میں تفرقہ پھیلایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام کی حقیقت سے آگہی کیلئے تعلیمی اداروں میں تفسیر قرآن کی تعلیم دی جائے۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ ملک کو درپیش مسائل کا واحد حل اسلام کے مطابق قوانین کو تشکیل دینا ہے۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ ہمیں اپنے شعبہ زندگی پر اسلامی تعلیمات کے مطابق مکمل طور پر عمل کرنا چاہئے، ہمیں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے سب کا حق ہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں اس کی کارکردگی میں مزید بہتری آئے گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو بند کرنے کی باتیں درست نہیں۔ مولانا عطاء الرحمن، بیرسٹر محمد علی سیف اور سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل مؤثر انداز میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے اسے تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں، بندوق اٹھانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے تمام فرقوں کو اکٹھا کرکے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا رہا ہے اس لئے اسے متنازعہ نہ بنایا جائے۔

متعلقہ عنوان :