پاکستان دنیا میں کپاس پیداکرنیوالے ممالک میں چوتھے نمبر پر ،ملکی مجموعی پیداوار کا قریباً 80 فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے

ستمبراور اکتوبرمیں موسم میں نمی بڑھ جانے کی وجہ سے فصل میں گلابی سنڈی اور لشکری سنڈی کے حملہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ،باقاعدہ معائنہ ضروری

پیر 19 ستمبر 2016 19:08

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔19ستمبر ۔2016ء) پاکستان دنیا میں کپاس پیداکرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے اور ملکی مجموعی پیداوار کا قریباً 80 فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔ کپاس اور اس کی مصنوعات کے ذریعے ملک کو کثیر زرمبادلہ بھی حاصل ہوتاہے۔کپاس حساس فصل ہونے کی وجہ سے مون سون بارشوں اور ہوا میں موجود نمی سے زیادہ متاثر ہوتی ہے کیونکہ کپاس کی فصل کے لئے مناسب وقت پر مناسب مقدارمیں بارش کاہونا مفید ہوتا ہے مگر زیادہ مقدار میں غیر ضروری بارشیں فصل کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں ۔

ستمبراور اکتوبرمیں موسم میں نمی بڑھ جانے کی وجہ سے کپاس کی فصل میں گلابی سنڈی اور لشکری سنڈی کے حملہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس کے لئے فصل کا باقاعدہ معائنہ ضروری ہوتاہے۔

(جاری ہے)

گلابی سنڈی پاکستان کے تمام کپاس کاشت کرنے والے علاقوں میں پائی جاتی ہے پروانے کا رنگ گہرا بھورا اور جسم پر سیاہ نقطے ہوتے ہیں۔ سنڈی کا رنگ انڈے سے نکلنے کے بعد شروع میں سفید اور بعد ازاں گلابی ہوجاتا ہے۔

پورے قد کی سنڈی تقریباً 1.0 سے 1.5 سینٹی میڑ لمبی ہوتی ہے۔ اس کی مادہ مختلف وقفوں میں 200 تا 400 انڈے علیحدہ علیحدہ یاگچھوں کی شکل میں پتوں ڈوڈیوں، پھولوں اور ٹینڈوں پر دیتی ہے۔ ان انڈوں میں سے 3 تا7 دن کے بعد سنڈیاں نکل آتی ہیں جو ڈوڈیوں، پھولوں یا ٹینڈوں میں باریک سوراخ کرکے اندر چلی جاتی ہیں اور انہیں اندر ہی اندر کھاتی رہتی ہیں۔ ٹینڈے میں سوراخ کا منہ بند ہوجانے کی وجہ سے حملہ شدہ ٹینڈے کی شناخت مشکل ہوجاتی ہے۔

کویا بننے سے پہلے سنڈیاں ٹینڈوں میں سوراخ کرلیتی ہیں تاکہ پروانہ باہر نکل سکے سنڈیاں ٹینڈوں سے باہر زمین پر گرے پڑے پتوں،پھولوں یا زمین کی دراڑوں میں کویا (Pupa) بناتی ہیں۔ گلابی سنڈی کی افزائش نسل موسم گرما میں جاری رہتی ہے۔ سردی کے شروع میں سنڈیاں متاثرہ ٹینڈوں میں2 بیجوں کو جوڑ کر ان کے اندر سرمائی نیند سوجاتی ہیں بلکہ بعض سنڈیاں اپناسردی کا عرصہ پورا کرنے پر کویا بن جاتی ہیں اور پھر ان سے جنوری، فروری سے مارچ تک پروانے نکل آتے ہیں۔

مشاہدہ میں آیا ہے کہ سرمائی نیند سوئی ہوئی سنڈیوں سے پروانوں کی کثرت جولائی اور اگست میں نکلتی ہے اور ستمبر سے نومبر تک ہوا میں رطوبت میں اضافہ اورفصل میں پھول، نرم ٹینڈوں اور کلیوں کی بہتات کی وجہ سے گلابی سنڈی کی افزائش میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آخری نسل کی سنڈیاں متاثرہ ٹینڈے کے 2 بیجوں کو جوڑ کر بیجوں کے اندر پڑی رہتی ہیں۔ ایسے ٹینڈے عموماً چنائی کے وقت پر چھوڑ دئیے جاتے ہیں یا پھر زمین پر گر کر آئندہ موسم میں حملہ کا باعث بنتے ہیں۔

متاثرہ کپاس میں موجود کچھ سنڈیاں جننگ فیکٹریوں میں انہی ڈبل بیجوں میں رہ جاتی ہیں اور پھر وہاں سے کچھ پروانے نئی فصل پر آجاتے ہیں۔شروع موسم میں سنڈی ڈوڈیوں پر حملہ کرتی ہے اور بعد ازاں پھولوں کے اندر داخل ہو کر، پھول کی پتیوں کے کناروں کو اپنے منہ سے نکلنے والے لعاب سے اس طرح موڑ دیتی ہے کہ متاثرہ پھول مدھانی نما شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

سنڈی پھول کے نر اور مادہ حصوں کو کھاتی ہے۔ جب سنڈی ٹینڈے کے اندر داخل ہوتی ہے تو ٹینڈے پر موجود سوراخ بند ہوجاتاہے اور متاثرہ ٹینڈا آسانی سے شناخت نہیں ہوپاتا۔ گلابی سنڈی کے متاثرہ ٹینڈے بمشکل کھلتے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والی روئی بد رنگ اور ریشہ کمزور ہوجاتا ہے۔ یہ سنڈی سردیوں کا موسم دو بیجوں کو جوڑ کران کے اندر یاآخری چنائی کے بعد بچ جانے والے ان کھلے ٹینڈوں یا جننگ فیکٹریوں کے کچرا کے اندر گزارتی ہے۔

سنڈیاں ٹینڈوں میں داخل ہو کر کچے بیج کھاتی ہیں ریشے کو کمزور اور زرد رنگ کا بنادیتی ہے جس کے نتیجے میں دھاگہ کی کوالٹی متاثرہوتی ہے پرانے حملہ شدہ ٹینڈوں کو اگر کھولا جائے تو مخصوص سٹراند کی سی بو آتی ہے حملہ شدہ ٹینڈے فصل کے آخر موسم میں زیادہ تر خشک اور سخت حالت میں پودوں کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ ان کا متاثرہ حصہ وقت سے پہلے کُھل جاتا ہے گلابی سنڈی کے حملہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ حملہ شدہ ٹینڈوں میں سوراخ کانشان نظر نہیں آتا۔

لہٰذا ٹینڈوں میں اس سنڈی کے حملے کا اندازہ انہیں کاٹ کر یا کھول کرہی لگایا جا سکتا ہے۔ سوراخ کے نشان کی جگہ ٹینڈے کے اندر کی طرف بلک یا پھوڑے کی شکل کا ابھار سا دکھائی دیتا ہے۔ لشکری سنڈی لشکر کی طرح گروہ در گروہ فصل پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ کپاس کے علاوہ گوبھی، پالک، بھنڈی، تمباکو، برسیم، آلو، جنتر، مکئی اور ٹماٹر پر حملہ آور ہوتی ہیں۔

یہ جولائی سے اکتوبر کے دوران کسی وقت بھی فصل پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔ پروانے کا رنگ سفید اور خاکستری یا زردی مائل بھورا ہوتا ہے۔ نوزائیدہ سنڈیوں کا رنگ سبزی مائل اور سر کالا ہوتا ہے۔ سنڈیاں خوراک کھا کرسائز میں بڑھتی ہیں تو ان کی بالائی سطح پر دھاریاں نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ پورے قد کی سنڈیوں کا رنگ سبزی مائل بھورا ہوتاہے اور تقریباً 5.0 سینٹی میٹر لمبی ہوتی ہیں۔

اگر سنڈی کو ہاتھ لگایا جائے تو وہ اپنے جسم کو گول سا بنا لیتی ہے اور نیچے بھی گر پڑتی ہے۔مادہ پروانہ گول ہلکے سبز رنگ کے انڈے 2 تا3گچھوں کی صورت میں پتوں کی نچلی سطح پر دیتی ہے ہر گچھے میں کئی سو انڈے ہوتے ہیں یہ انڈے بعد میں سیا ہ رنگ کے ہوجاتے ہیں ان انڈوں میں سے 2 تا5 دن میں سنڈیاں نکل آتی ہیں۔شدید حملہ کی صورت میں سنڈیاں پتے، شگوفے کونپلوں اور ڈوڈیوں کو کھا جاتی ہیں۔

حملہ شدہ کھیتوں میں سنڈیوں کا فضلہ چھوٹے چھوٹے سیاہ دانوں کی مانند کثیر تعداد میں پتوں یا پودے کے مختلف حصوں پر بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کھیتوں میں لشکری سنڈی کا حملہ عموماً ٹکڑیوں کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔ لشکری سنڈی کے حملے کی ایک خاص پہچان یہ بھی ہے کہ سنڈیاں پتوں پر گروہ کی شکل میں موجود ہوتی ہیں اور سبز حصے کو اس طرح سے کھا جاتی ہیں کہ پتوں کی صرف رگیں باقی رہ جاتی ہیں یہ ایک کھیت کے بعد دوسرے کھیت پر حملہ آور ہوتی ہے۔

ان سنڈیوں سے فصلوں کو پاک رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کھیتوں کو سا را سال جڑی بوٹیوں سے پاک صاف رکھا جائے اور جب کھیت خالی ہوں تو ان میں روٹا ویٹر اور گہرا ہل چلا یا جا ئے تا کہ زمین میں چھپے ہو ئے پیوپے زمین سے با ہر آکر پر ندوں کی خوراک بن جائیں۔ چڑیاں سنڈیوں کو بہت رغبت سے کھاتی ہیں لہذا کپاس کے کھیتوں میں باجرہ کی قطاریں کاشت کی جائیں تاکہ چڑیاں زیادہ تعداد میں کپاس کے کھیتوں میں آئیں۔

کپا س کی فصل ختم ہو نے پر کھیتوں میں بھیڑ ، بکریاں چرائی جائیں تا کہ بچے کھچے ٹینڈوں میں مو جود سنڈیاں تلف ہو جائیں۔ جننگ فیکٹریوں کے کچرے کو اکٹھا کر کے جلا دیا جائے ۔کپاس کے کھیتوں میں ما رچ سے لگا تا رروشنی کے پھندے اور پی بی روبز لگا ئے جائیں تا کہ سنڈیوں کے پر وا نے تلف ہو جا ئیں اور فصل کپاس سنڈیوں کے حملے سے محفوظ رہ سکے۔ چھڑیوں کو ہر صورت تلف کیا جائے لیکن اگر ان کو بطور ایندھن کے طور پر رکھنا مقصود ہو تو چھوٹے گٹھے بنا کر دھوپ کے اندر اس طرح رکھا جائے کہ ان کے مڈھ زمین کی طرف رہیں اور دھوپ لگنے سے باقی ماندہ ٹینڈوں سے گلابی سنڈی کے پروانے کپاس کی فصل سے قبل نکل کر ضائع ہوجائیں گے۔

کپاس کے 100 نرم ٹینڈوں میں5سنڈیاں گلابی سنڈی کے حملہ کی معاشی نقصان کی حد ہیں ۔ معاشی نقصان کی حد پر پہنچنے کی صورت میں ٹرائی ایزوفاس 40 ای سی بحساب ایک لٹر یا ڈیلٹا میتھرین 2.5 ای سی بحساب 250 ملی لٹریا سپائنو سڈ240 ایس سی بحساب 50 ملی لٹر یاسپائنٹورام 120 ایس سی بحساب 100 سے 120 ملی لٹریاگیما سائی ہیلو تھرین بحساب 100 ملی لٹر یا فینولریٹ 20 ای سی بحساب 250 ملی لٹر یا بائی فینتھرین 10 فیصد ای سی بحساب 300 ملی لٹرفی100 لٹرپانی میں ملا کر سپرے کی جائیں۔

لشکری سنڈی کے کیمیائی انسداد کے لئے لیفنیوران50 ای سی زہر بحساب 200 ملی لٹریا ٹیبیوفینازائیڈ زہر بحساب 350 ملی لٹر یا ایمامیکن بینزوایٹ1.9 ای سی زہر بحساب 250 ملی لٹریا میتھوکسی کینوزائیڈ 240 ایس سی زہربحساب 200 ملی لٹر فی 100 لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جائیں۔