پاناما پیپرز کے حوالے سے حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری طرح سے ادا کی ہے٬ حکومت شروع دن سے اس معاملے پر کلیئر ہے اور اس کا شفاف حل چاہتی ہے ٬ ہم 2018ء کے انتخابات میں پاناما لیکس کا بوجھ اٹھا کر حصہ نہیں لیں گے٬ اس معاملے پرہم نے سپریم کورٹ کے کسی بھی باعزت ریٹائرڈ جج کا کمیشن بنانے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے کوئی بھی معزز جج اس کے لیے راضی نہیں ہوا

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ محمد سعد رفیق کی نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات چیت

بدھ 26 اکتوبر 2016 22:22

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 اکتوبر2016ء) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ محمد سعد رفیق نے کہا ہے کہ پاناما پیپرز کے حوالے سے حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری طرح سے ادا کی ہے٬ حکومت شروع دن سے اس معاملے پر کلیئر ہے اور اس کا شفاف حل چاہتی ہے کیونکہ ہم 2018ء کے انتخابات میں پاناما لیکس کا بوجھ اٹھا کر حصہ نہیں لیں گے٬ اس معاملے پرہم نے سپریم کورٹ کے کسی بھی باعزت ریٹائرڈ جج کا کمیشن بنانے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے کوئی بھی معزز جج اس کے لیے راضی نہیں ہوا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے کہا کہ ہم نے اسی پاکستانی قانون کے تحت سپریم کورٹ کو خط لکھا جس کے تحت پاکستانی عدالت عظمیٰ کئی کمیشن بنا کے نتائج سامنے لاتی رہی ہے٬ بہر حال اس بار سپریم کورٹ نے مناسب نہیں سمجھا اور اس کا جواب واپس بھیج دیا٬ اس کے بعد ٹی او آرز کے لیے اپوزیشن سے طویل بات چیت کی جس سے بھی اپوزیشن کی غیر سنجیدگی عیاں تھی٬ اس کے بعد جامع احتساب کا ایک قانون پارلیمان میں پیش کیا جس کا مستقبل میں بھی فائدہ ہوگا جو آج بھی وہاں موجود ہے لیکن اس سب کے باوجود اب پاناما معاملے پر جب ہمارے مخالفین سپریم کورٹ چلے گئے ہیں اور نوٹسز بھی جاری ہو گئے ہیں٬ ہمارے قانونی ماہرین کے مطابق عدالت عظمیٰ کے نوٹسز جاری کرنے کی رفتار تیز ہے لیکن پھر بھی ہم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کا خیر مقدم کیاکیونکہ ہمارا دامن صاف ہے٬ ہم نے تویہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اس درخواست پر کوئی اعتراض بھی نہیں اٹھائیں گے تاکہ عدالت عظمیٰ اس کیس کا فیصلہ کر سکے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے٬ پاناما معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے بہتر فورم کوئی بھی نہیں اور اب سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی ہمیں قبول ہوگا اس لیے عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی عدالت لگانے کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کا انتظار کرے۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ جب ہمارے مخالفین سپریم کورٹ میں چلے بھی گئے ہیں اور ہم نے بھی اس عمل کوخوش آمدید کہا ہے تو پھر یہ سارا جلائو گھیرائو یا لاک ڈائون کس لیے ہے اس کا کوئی جواز نہیں بنتا٬ ایسا کرنے سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچے گا جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں٬ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے اسلام آباد میں لاک ڈائون کے حوالے سے ایجنسیوں کی بھی رپورٹس موجود ہیں کہ یہ لوگ اسلام آباد میں انتشار اور فساد برپا کرکے ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے حکومت اپوزیشن سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں سے بھی رابطے کر رہے ہیں تاکہ ان سے مشاورت کے بعد صورت حال سے نکلاجا سکے ٬ ایک اور سوال کے جواب میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ بھارت میں جمہوریت کی عمر پاکستان سے زیادہ ہے اس لیے وہ ہم سے آگے ہیں٬ انہوں نے کہا کہ ہماری تلاشی کی بات تو کی جا رہی ہے لیکن ہم یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ پڑیوں ہم سے برآمد نہیں ہونی٬ ہمارے ڈی این اے ٹیسٹ کی بھی کوئی بات نہیں کر رہا جن سے ہوئیں ان کے بارے میں سب جانتے ہیں٬ سیاست میں کوئی بھی بدتمیزی کرے گا تو پھر اسے اس کی زبان میں ہی جواب دیا جائے گا٬ انہیں صرف سی پیک کی کامیابی کی جلن ہے کہ اگر وزیراعظم محمد نواز شریف کی حکومت میں یہ منصوبی مکمل ہو گیا تو پی ٹی آئی تو سکڑ کے رہ جائے گی٬ یہ لوگ ناکام ہو چکے ہیں اور ان کی خیبر پختونخواہ کی حکومت کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ بھی نہیں کیا بس اب یہ لوگ اسی ناکامی کو چھپانے کے لیے اختجاجی سیاست کر رہے ہیں جس میں انہیں ماضی کی طرح پھر مایوسی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا٬ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قومی اداروں کا گھیرائو ہم نے نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف نے کیا ہے٬ عمران خان اتنے بڑے محل میں رہنے کے باوجعد ٹیکس صرف دو لاکھ دیتے ہیں اور باتیں بہت بڑی بڑی کرتے ہیںان کی تو جائیداد بھی بے نامی٬ انکی اولاد بھی بے نامی اور آف شور کمپنیوں کے بانی بھی یہ جناب خود توپھر دوسروں پہ الزامات کیوں لگاتے ہیں٬ انہیں دوسروں پر الزامات لگانے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی ضرورجھانکنا چاہیے٬ ایک اور سوال کے جواب مین وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کا ابھی تک تو کوئی منصوبہ نہیں بنا لیکن انہیں ماضی کی طرح راستے نہیں دئیے جائیں گے کیونکہ ان لوگوں نے ماضی میں اپنے تمام وعدے توڑے اور کسی کا بھی پاس نہیں کیا٬ جلسے جلوس اور پرامن اختجاج کا حق ہر سیاسی جماعت کا ہے جس سے نہیں روکا جائے گا لیکن لاک ڈائون کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی اور حکومت دارالحکومت کو قانون کے مطابق تحفظ فراہم کرے گی اورعوام کے جان و مال کے تحفظ کویقینی بنایا جائے گا۔