Live Updates

تحریک انصاف پانامہ پیپرز کی تحقیقات نہیں چاہتی٬وہ اس پر سیاست کر رہی ہے٬ احتجاج اور دھرنوں کی منفی سیاست پر قوم کے 6 ماہ ضائع کرنے کے بعد عمران خان نے پانامہ کے مسئلے پر کمیشن کو قبول کر لیا جس کا اعلان وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپریل میں ہی کردیا تھا٬وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی کی ٹی وی چینل سے گفتگو

بدھ 2 نومبر 2016 23:22

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 نومبر2016ء) وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پانامہ پیپرز کی تحقیقات نہیں چاہتی بلکہ اس پر سیاست کر رہی ہے٬ احتجاج اور دھرنوں کی منفی سیاست پر قوم کے چھے ماہ ضائع کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پانامہ کے مسلے پر کمیشن کو قبول کر لیا ہے حالانکہ اس کمیشن کے قیام کا اعلان تو وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپریل میں ہی کردیا تھا٬ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا٬ انہوں نے کہا کہ لوگوں نے عمران خان کی احتجاجی سیاست کو مسترد کر دیا ہے جس کا ثبوت ضمنی و بلدیاتی انتخابات سمیت گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں عوام نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دے کر کیا ہے٬ مشیر وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ لوگ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور وزیراعظم محمد نواز شریف کی ترقی و خوشحالی کی پالیسیوں پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں٬ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے گذشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں لوگوں کے عمران خان کی احتجاجی سیاست کو مسترد کرنے کو سراہا ہے کیونکہ عوام پی ٹی آئی کی حقیقت جان چکے ہیں٬ عرفان صدیقی نے یہ بھی واضح کیا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے یہ بھی بتا یا کہ عمران خان کے احتجاج کی وجہ سے چین کا اعلیٰ سطحی وفد بھی پاکستان نہیں آ سکا اور انہوں نے اپنا پروگرام تبدیل کر دیا٬ یہاں احتجاج اور دھرنا سیاست والے کرنا کیاچاہتے ہیں یہ ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں٬ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت جو زبان استعمال کرتی ہے وہ کسی قائد کو زیب نہیں دیتی٬ انہیں کچھ بھی بولنے سے قبل سوچنا سمجھنا ضرور چاہیے کیونکہ الفاظ کا چنائو ہی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے اورکوئی بھی قائد اپنے کارکنوں کے لیے ایک نمونہ ہوتا ہے٬ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک نے وفاق کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ قابل مذمت ہے جس کی لوگ بھی مذمت کر رہے ہیں٬ عرفان صدیقی نے کہا کہ سیاسی قائد اپنی زبان کا پکا ہوتا ہے اور وہ جو کہتاہے اس پر عمل کرتا ہے لیکن عمران خان تو ہمیشہ ہی یو ٹرن لیتے ہیں اور کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتے ہیں٬ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سیاست میںبہت ہی سخت ادوار دیکھے ہیں لیکن اب تو پولیس کا کہیں ناکہ لگا لینا بھی بہت عجیب سمجھا جاتا ہے٬ ہم نے تو وہ دور بھی دیکھا ہے جب ایک احتجاج کو روکنے کے لیے کئی شہروں میں کرفیو لگے یہاں تک کہ تین شہروں میں تو مارشل لاء بھی لگا دیا گیا تھا٬ کسی پہ گولی چلی اور کوئی ہلاک ہوگیا٬ یہ ساری چیزیں ہم دیکھتے رہے ہیں لیکن آج تو ہم بہت آگے نکل چکے ہیں لیکن ان تلخ ادوار میں بھی زبان میں شائستگی موجود ہوتی تھی اور زبان کی اسی شائستگی٬ معیار اور وقارکی آج بھی ضرورت ہے جس سے ایک تو دوسروں کی دل آزاری نہیں ہوتی اور دوسرایہ کہ اپنا مقام بلند ہوتا ہے اور ایک قائد کی حیثیت سے سطح بھی اوپر آتی ہے٬ انہوں نے کہا کہ ایک قائد کا اپنے کارکنوں کے لیے مثالی کردار ہونا چاہیے کیونکہ اگر ایک قائد کوئی روایت بناتا ہے تو وہ اس کے کارکنوں میں بھی آہی جاتی ہے جس سے انتہا پسندی و فسادو عدم برداشت کا کلچر پروان چڑھتا ہے اس لیے ایک قائد کو نہایت ہی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایک قائد کی طرف سے غیر ذمہ داری اور ایسا رویہ سیاست کی کھیتی کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا٬ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی بھی قائد کی گفتگو اس کے الفاظ کا چنائو اور اس کی بدن بولی اس کے قد کاٹھ کا تعین کرتا ہے٬ ایک اور سوال کے جواب مین مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میڈیا کو انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہوگا اور بنائے گئے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنا ناہوگا٬ پاکستانی معاشرہ ایک مہذب معاشرہ ہے اور شائستگی ہماری روایت ہے جہاں جمہوری قدروں کو پروان چڑھانا ہوگا٬ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ہماری پہچان ہے اور پاکستانیت ہی ہماری پہچان ہونی بھی چاہیے٬ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ نے لسانیت کی جو بات کی ہے اس کا احتساب لوگ خود کریں گے کیونکہ لوگ ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے اور جانتے ہیں کہ یہ لوگ سیاست کر رہے ہیں٬ ہمیں نسلی تعصب سے بالاتر ہو کر صرف پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا اور آگے بڑھنا چاہیے٬ انہوں نے کہا کہ 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے صرف 19 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ 81 فیصد ووٹ ان کے خلاف پڑے تھے اس لیے پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ ان 19 فیصد والوں کی ترجمانی کرے 81 فیصد کی تو کر ہی نہیں سکتی کیونکہ انہوں نے تو پی ٹی آئی کو ووٹ ہی نہیں دئیے٬ موجودہ حکومت ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے کوشاں ہے اور ہم پر عزم ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں عوام کے سامنے سرخرو ہو کر جائیں گے کیونکہ وزیراعظم محمد نواز شریف عوام سے کیے گئے وعدے پورے کر رہے ہیں۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات