قانونی اصلاحات متعارف کرانا صوبوں کی ذمہ داری ہے ،ْبیرسٹر ظفر اللہ

ْبرطانیہ میں بھی ملٹری ٹرائلز ہوتے ہیں جہاں اعلی سطح کی عدالتی اصلاحات نافذ ہیں ،ْانٹرویو

پیر 20 مارچ 2017 21:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مارچ2017ء)وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف بیریسٹر ظفر اللہ خان نے فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق کہا ہے کہ قانونی اصلاحات متعاراف کرانا وفاق کی نہیں صوبوں کی ذمہ داری ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بیریسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ قانونی اصلاحات لانا بنیادی طور پر صوبوں کا اختیار ہے، اس میں حکومت نے کیا کرنا ہی جب بھی جرم ہوتا ہے تو پولیس حرکت میں آتی ہے، تحقیقات ہوں یا سزا کا معاملہ یہ تمام صوبائی معاملات ہیں۔

پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد2015میں دو برس کے لیے نیشنل ایکشن کے تحت فوجی عدالتیں قائم کی گی تھیں۔ بعض پاکستانی پارلیمانی اراکین نے اس وقت ان کے قیام کو وقت کی مجبوری قراردیا تھا۔

(جاری ہے)

قوم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ دو برس میں عدالتی اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی تاہم سیاسی جماعتیں ایسا کرنے میں ناکام رہیں ،ْیہی وجہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے بل پر سیاسی جماعتوں کے درمیان ہفتوں جاری رہنے والی لے دے کے بعد اب اتفاق رائے کے ساتھ بل کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا سیاستدان ماضی کی طرح دو برس بعد پھر بے بسی کا رونا روئیں گے یا اصلاحات لائی جائیں گئی، بیریسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ میں سیاست کا طالب علم ہوں ، مستقبلیت کا نہیں۔اس سلسلے میں کہ کیا اصلاحات لانا حکومت کے ہاتھ میں نہیں، بیریسٹر ظفر اللہ خان کا کہنا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ برطانیہ میں بھی ملٹری ٹرائلز ہوتے ہیں جہاں اعلی سطح کی عدالتی اصلاحات نافذ ہیں اور امریکہ جو دنیا کی بہترین جمہوریت ہے وہاں پر بھی ایسا ہوتا ہے تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ شاید فوجی عدالتوں کی مستقبل میں ضرورت نہ پڑے ،ْضرب عضب نے انتہاپسندوں کی کمر توڑی ہے ،ْاب دوسرے مرحلے میں آپریشن ردالفساد جاری ہے۔

مزید اصلاحات بھی آئیں گی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگلے دو برس میں ہم اس سے بہت بہتر جگہ پر ہوں گئے۔ایک طرف وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ پاکستان میں حالات بہتر ہونے کا دعویٰ کرتے رہے تو دوسری طرف حالات کی مجبوری کو بھی جواز بناتے رہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جو فوجی عدالتوں کے خلاف ہیں تاہم ہم مجبور ہیں کیونکہ حالات ایسے ہیں کہ کوئی چارہ کار موجود نہیں۔

تمام سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں میں توسیع پر تو پہلے سے ہی راضی تھیں مگر کچھ سیف گارڈز شامل کرنے پر بحث جاری تھی۔ ہم نے پیپلز پارٹی کو یہی کہا کہ یہ سیف گارڈز پاکستان کے آئین اور قانون میں پہلے سے شامل ہیں مگر پی پی پی چاہتی تھی کہ ہم انہیں اس مسودہ کا حصہ بنائیں۔اس پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی پی پی کہتی تھی کہ قانون شہادت لگے تو ہم نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں پہلے سے لکھا ہے کہ قانون شہادت لگے گا تو لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ وہ چاہتے تھے جوڈیشل رویو کی اجازت ہو تو ہمارا موقف تھا کہ سپریم کورٹ نے تو پہلے سے ہی کہہ رکھا۔ اس طرح کی معمولی چیزیں تھیں تو اصل میں ہمارا کوئی بنیادی اختلاف نہیں تھا۔‘