سپریم کورٹ،پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے دس والیوم پرمشتمل اپنی حتمی رپورٹ عملدرآمد بنچ میں پیش کردی، فریقین کورپورٹ کی نقول فراہم کرنے کا حکم، جے آئی ٹی تحلیل

جے آئی ٹی میں تحقیقات کے دوران حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے ذمہ دار فرد کا نام منظر عام پر لا نے کے حوالے سے فیصلہ حکومت کرے،ریکارڈ ٹمپرنگ کے معاملے پر چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف فوری مقدمہ درج کرنے کا حکم

پیر 10 جولائی 2017 23:32

سپریم کورٹ،پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 جولائی2017ء) سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے دس والیوم پرمشتمل اپنی حتمی رپورٹ عملدرآمد بنچ میں پیش کرنے کے بعد فریقین کورپورٹ کی نقول فراہم کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے جے آئی ٹی تحلیل کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی میں تحقیقات کے دوران حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے ذمہ دار فرد کا نام منظر عام پر لا یا جائے، عدالت تصویرلیک کے معاملے پرکمیشن نہیں بناسکتی، حکومت چاہے تو کمیشن بنا کرمتعلقہ فرد کیخلاف انکوائری کرکے قانون کے مطابق کارروائی کرے ،ریکارڈ ٹمپرنگ کے معاملے پر چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف فوری مقدمہ درج کرایا جائے ، عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ سے متعلق بے بنیاد خبر شائع کرنے پر جنگ گروپ کے مالک ایڈیٹرانچیف اور پرنٹرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سات روز میں جواب طلب کرلیا، پیرکو جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل پانامہ کیس کے فیصلے پرعملدرآمد سے متعلق تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، تواس موقع پر جے آئی ٹی نے عدالتی حکم کی روشنی میں تحقیقاتی رپورٹ بنچ کو پیش کی۔

(جاری ہے)

جسٹس اعجاز افضل نے اٹارنی جنرل سے تصویرلیکس کے ذمہ دار فرد کانام منظرعام پرلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ قبل ازیں عدالت کے استفسارپرآپ نے بتایا تھا کہ نام منظر عام پر لانے پر وفاق کو کوئی اعتراض نہیں، اب تصویر لیکس کے معاملے پر حکومت چاہے تو ذمہ دار شخص کے خلاف انکوائری کرکے کارروائی کرسکتی ہے یا چاہے توکمیشن بنا لے ، واٹس ایپ کال اور ریکارڈ ٹیمپرنگ سے متعلق استفسار پر اٹارنی جنرل نے عدالت کوآگاہ کیاکہ ایف آئی اے نے چیئرمین ایس ای سی پی کو ٹمپرنگ کا ذمہ دار قرار دیا ہے ، جس پرجسٹس اعجاز افضل نے ہدایت کی کہ ظفرحجازی کے خلاف فوری طورپر ایف آئی آر درج کرائی جائے۔

عدالت نے مقامی انگریزی اخبار دی نیوز میں جے آئی ٹی سے متعلق چھپنے والے مواد کا نوٹس لیا اورکہا کہ دی نیوزکی سٹوری براہ راست توہین عدالت کے مترادف ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی پر دبائو ڈالنے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا، ہم عدالت کے سامنے غلط بیانی کرنے کے معاملے کا بھی نوٹس لیں گے، غلط رپورٹنگ کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے، سپریم کورٹ نے جنگ گروپ اور رپورٹر احمد نورانی اور میر جاوید الرحمان سمیت میر شکیل الرحمان کو بھی شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد میڈیا کو دیے جانے والے سرکاری اشتہارات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے جنگ گروپ سے 7 روز میں جواب طلب کرلیا ، عدالت کو جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ واجد ضیا نے بتایاکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ 10 والیوم پر مشتمل ہے، والیوم نمبر 10 میں کچھ قانونی معاملات ہیں جن کو فی الوقت افشا نہ کیا جائے، سپریم کورٹ نے حتمی رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد جے آئی ٹی کو تحلیل کر تے ہوئے ہدایت کی کہ جے آئی ٹی ارکان کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں ہونی چاہئیے، عدالت نے حکم دیا کہ جوڈیشل کمپلیکس دس روز تک جے آئی ٹی کے پاس رہے گا وہاں پر کاغذات اورمختلف دستاویزات موجود ہیں جس کو جے آئی ٹی سمیٹے گی عدالت نے رپورٹ کی نقول فراہم کرکے رجسٹرارسپریم کورٹ کو کاپی فراہم کرنے کی ہدایت کی اور جے آئی ٹی ارکان کو آئندہ سماعت پر دوبارہ عدالت پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔