سپریم کورٹ ، دوملزمان کو ناکافی شواہد کی بناء پر 12 سال بعد بری کرنے کا حکم، ایک ملزم ابرار کی بریت کے خلاف درخواست سماعت کے لئے منظور

منگل 3 اکتوبر 2017 21:51

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 اکتوبر2017ء) سپریم کورٹ نے قتل کے مختلف مقدمات میں سزایافتہ دوملزمان کو ناکافی شواہد کی بناء پر 12 سال بعد بری کرتے ہوئے قتل کیس کے ایک ملزم ابرار کی بریت کے خلاف دائردرخواست باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرلی ہے اورکہاہے کہ اگر ایک شخص بے گناہ ہونے کے باوجود 12سال تک جیل کاٹ لے تو اس کا یہ عرصہ کس کھاتے میں جائے گا اور اس کا ذمہ دار کون ہوگاکیا اس کی زندگی کا گزرا ہوا یہ قیمتی وقت واپس لایا جاسکتا ہے اگر استغاثہ سچائی اورلگن کے ساتھ کام کرے تو عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ اور معاملات نچلی سطح پرحل ہو سکتے ہیں ، منگل کوجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، پہلے کیس کے ملزم ارشاد پرمظفرگڑھ میں اپنی سابقہ بیوی کو قتل کرنے جبکہ ملزم علی بہادرپرمالاکنڈ میں گل رحمان نامی شخص کوقتل کرنے کاالزام تھا سماعت کے دوران ملزم ارشاد کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ ملزم کا مال مویشی کے لئے چارہ کاٹتے پراپنی سابقہ بیوی سے جھگڑا ہو جس میں اس نے مقتولہ کو سینے اور گلے پر چھری کے وار کرکے قتل کردیا تھا، ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت کے ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی تھی،ملتان ہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا ۔

(جاری ہے)

ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ واقعہ کا ایک گواہ مولوی نصیر احمد تھا جس نے جھوٹی گواہی دینے سے انکارکرتے ہوئے واضح طورپرکہاکہ وہ موقع کا گواہ نہیں ہے ، جس پرجسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ جانے کیوں لوگ عدالتوں میں آکر سچ نہیں بولتے،استغاثہ کیس بناتے وقت مدعی کے بیان کو سچ مان لیتا ہے ، آخرسرکار خود سچ تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ میڈیکل رپوٹ اور گواہان کے بیانات میں واضح تضاد موجود ہی. قتل کے وقت گواہ ایک ایکڑ کے فاصلہ پر موجود تھا ایسا گواہ چشم دید گواہ ہرگز نہیں ہوسکتا ، فا صلہ بہت زیادہ ہے ایسے گواہ کی گواہی مشکوک ہے ، عدالت نے وکیل صفائی کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ملزم کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا ، دوسرے کیس کے ملزم علی بہادرکی وکیل عائشہ تسنیم نے پیش ہوکر عدالت کو بتایا کہ مالا کنڈ تھانہ میں ملزم کے خلاف 2004 ء میں قتل کا مقدمہ درج ہوا ، ٹرائل کورٹ نے ملزم کوعمر قید کی سزاء سنائی جسے پشاور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا ان کا کہنا تھا کہ کیس میں بہت سی چیزیں مشکوک ہیں ، استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکارہا ہے ، جبکہ مقتول کی میڈیکل رپورٹ قتل کے واقعہ سے میچ نہیں کررہی ہے ، سماعت کے دوران عدالت نے کیس میں بہترین معاونت کرنے پر پراسیکیوٹر جنرل پنجاب محمد جعفر حسین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر درست معاونت ہوتو اصل ملزمان بری نہیں ہوسکتے جبکہ پولیس سچائی ایمانداری سے حقائق کے مطابق تحقیقات کرے تواستغاثہ کانظام بہتر ہوسکتا ہے،جب کیس میں کچھ نہ ہو تو ٹرائل کورٹ ملزم کو عمر قید کی سزاء دیتی ہے ، اگر ٹرائل کورٹ ملزم کوعمرقید کی سزادے تووہ کیس بریت کاہوتاہے لیکن ٹرائل کورٹ میں ملزم کوبری کرنے کی ہمت نہیں ہوتی جبکہ کئی مقدمات میں جھوٹے گواہوں کی وجہ سے اصلی ملزم بری ہوجاتے ہیں جس کا الزام عدالتوں پرآتاہے ۔

اس لئے مقدمات کے مدعیوں کوبھی اپنے گریبانوں میں دیکھناہوگااگر جھوٹی شہادت سے ملزم کوفائدہ ملتاہے تواس میں قصوروار جھوٹا گواہ ہوتا ہے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے مزید کہا کہ اگر درست تحقیقات ہوں تو بہت سے مقدمات سپریم کورٹ تک نہ پہنچیں،تیسرے کیس میں عدالت نے عمر قید کے ملزم ابرابر کی بریت کے خلاف مسز شاہین اختر کی درخواست باقاعدہ سماعت کے لیئے منظور کرلی ، جس میں درخواست گزار کے وکیل اکرام چوہدری نے پیش ہوکرعدالت کو بتایا کہ راولپنڈی کے علاقہ سہال میں مسز شاہین اختر کے خاوند محمد خان کو 2009ء میں قتل کردیا گیا تھا جس پر ٹرائل کورٹ نے ملزم ابرار کو عمر قید کی سزاء سنائی جبکہ ہائی کورٹ نے ملزم کو بری کردیا تھا ، اس لئے استدعا ہے کہ ملزم ابرار کی بریت کے خلاف ہماری اپیل منظورکی جائے جس پرعدالت نے درخواست باقاعدہ سماعت کیلئے منظورکرلی ۔

متعلقہ عنوان :