سرکاری ملازم کے بیٹے کو درجہ چہارم ملازم کی بھرتی کے لئے دس اضافی نمبر دینے کے حوالے سے دائر درخواست مسترد،آئین میں کہاں لکھا ہے کہ سرکاری ملازم کے بچے کو10نمبر اضافی دئیے جائیں، کیاججز یاچیف سیکرٹری کے بچوں کے لیے بھی نمبروں کاکوٹہ ہوناچاہیے،سپریم کورٹ

منگل 3 اکتوبر 2017 22:00

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 اکتوبر2017ء) سپریم کورٹ نی ایک سرکاری ملازم کے بیٹے کو درجہ چہارم ملازم کی بھرتی کے لئے دس اضافی نمبر دینے کے حوالے سے دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ سرکاری ملازم کے بچے کو10نمبر اضافی دئیے جائیں، کیاججز یاچیف سیکرٹری کے بچوں کے لیے بھی نمبروں کاکوٹہ ہوناچاہیے، پاکستان میں بہت کچھ غیرآئینی ہوتاہے ،منگل کو جسٹس اعجازافضل خان کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل طارق محمود نے پیش ہوکرعدالت کوبتایا کہ نورمحمد کوقانون کے مطابق 10گریس مارکس دینے چاہیے تھے جو نہیں دئیے گئے، حالانکہ درخواست گزار ایک سرکاری ملازم کابیٹا ہے ، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ کہ آپ سینئر وکیل ہیں ہمیں بتائیں کیایہ آئینی طورپرصحیح ہے کہاں لکھا ہے کہ سرکاری ملازم کے بیٹے کواضافی نمبردیئے جائیں اس طرح توجج یاچیف سیکرٹری کے بچوں کیلئے بھی کوٹہ ہوناچاہیے ، فاضل جج نے مزید کہاکہ سینئر کالفظ نمائش کے لیے نہیں بلکہ اس سے ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے، درخواست گزار کے وکیل طارق محمود نے جواب دیا کہ اس نقطے پر ابھی تیار نہیں ہوں تیاری کر کے بتادوں گا، جسٹس قاض فائز عیسی نے مزید کہاکہ یونیورسٹی ٹیچر کے بچے کواگر10گریس مارکس ملیں توایسے ٹیچرکوبھی یونیورسٹی سے باہرہوناچاہیے، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگرسرکاری ملازم کے بچے کو10اضافی نمبردئیے جائیں تویہ میرٹ نہیں ہوگا، بلکہ یہ امتیازی سلوک ہے،عدالت کو اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان محمد فرید نے بتایا کہ درجہ چہارم کی آسامیاں زیارت کے لیے تھیں، نورمحمد کاتعلق لورالائی سے ہے، ہائی کورٹ نے بھی نورمحمد کی درخواست خارج کی تھی، جس پرعدالت کاکہناتھا کہ آسامیاں مقامی لوگوں کے لیے تھیں درخواست گزار کاضلع دوسراہے ، اس لئے درخواست خارج کردی جاتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :