لاہور ہائیکورٹ نے ٹھوکر نیاز بیگ ملتان روڈ سے آرمی ایمونیشن ڈپوکسی دوسری جگہ منتقل کرنے کاحکم دیدیا

اس کے ارد گرد 1143میٹر تک تعمیرات پر پابندی کے نوٹیفیکیشن کوغیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا‘ ایمونیشن ڈپو کی منتقلی کے لئے حکومت کو ایک سال کی مہلت

جمعہ 20 اکتوبر 2017 22:27

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 اکتوبر2017ء) لاہور ہائیکورٹ نے ٹھوکر نیاز بیگ ملتان روڈ سے آرمی ایمونیشن ڈپوکسی دوسری جگہ منتقل کرنے کاحکم دیتے ہوئے اس کے ارد گرد 1143میٹر تک تعمیرات پر پابندی کے نوٹیفیکیشن کوغیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا، عدالت نے ایمونیشن ڈپو کی منتقلی کے لئے حکومت کو ایک سال کی مہلت دی ہے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ ایمونیشن ڈیپو کے قریب تعمیرات پرپابندی سے متعلق ورکس آف ڈیفنس ایکٹ 1903غلامی کے دور کا قانون ہے جو برصغیر میں غلاموں کی زمینوں پر قبضے کے لئے بنایا گیا تھا ۔

اب یہ قانون پاکستانی دستور سے متصادم ہے ۔رہائشی علاقے میں ایمونیشن ڈپو کی وجہ سے اوجڑی کیمپ جیسا سانحہ ہو سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

مسٹر جسٹس عباد الرحمن لودھی نے یہ فیصلہ زبیدہ یعقوب چودھری کی درخواست پر جاری کیا ہے، جس میں خاتون نے ڈپو کی اراضی کے خسرے میں واقع دو کنال دو مرلے ملکیتی اراضی پر کسی بھی قسم کی تعمیرات پر پابندی کے نوٹیفیکیشن کو چیلنج کیا تھا، خاتون کا موقف تھا کہ ورکس آف ڈیفنس ایکٹ انیس سو تین کی دفعہ سات کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے جاری یہ نوٹیفیکیشن غیر قانونی ہے، عدالت نے یہ نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ اس کیس میں گیارہ اپریل دو ہزار سترہ کو ایڈیشنل ملٹری اسٹیٹ آفیسر نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ یہ ایمونیشن ڈپو منتقل کیا جا رہا ہے تا ہم حتمی تاریخ وزارت دفاع دے گی، دس مئی کو وزارت دفاع کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری نے اس کیس میں پیش ہو کر بتایا کہ وہ بھی ڈپو کی منتقلی کی حتمی تاریخ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، تاہم تئیس مئی کو وزارت دفاع کی طرف سے تحریری طور پر بتایا گیا کہ اس ڈپو کی پتوکی میں مجوزہ جگہ پر منتقلی کے لئے چھ برس کا عرصہ درکار ہے مگر دس اکتوبر کو وفاقی حکومت کے وکیل ڈپٹی اٹارنی جنرل جاوید قصوری نے کہا کہ جیو ٹیکنیکل سروے کے نتائج کی روشنی میں ڈپو کو پتوکی میں منتقل نہیں کیا جا سکتا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رہائشی علاقوں میں ایمونیشن ڈپو انسانی جانوں کے لئے سنگین خطرہ ہو سکتے ہیں کیونکہ دس اپریل 1988کو راولپنڈی میں ایسا ہی ہولناک واقعہ پیش آیا جس میں اوجڑی کیمپ پر مشتمل ایمونیشن ڈپو پر حملہ ہوا اور ایک اندازے کے مطابق 4ہزار سے زائد پاکستانی اس سانحے میں مارے گئے، آج تک اوجڑی کیمپ کے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہو سکا اور نہ ہی یہ پتہ چل سکا کہ یہ کوئی حادثہ تھا یا کوئی عالمی سازش تھی ، رہائشی علاقوں میں ایسے ایمونیشن ڈپو?ں کو انسانی جانوں کے لئے مستقل خطرہ سمجھا جاتا ہے، زبیدہ یعقوب کے اس کیس میں خاتون سیاستدان کلثوم سیف اللہ کی ستمبر دو ہزار گیارہ میں شائع کتاب کا حوالہ دینا بھی مناسب ہو گا جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ اوجڑی کیمپ کا واقعہ انیس سو اٹھاسی میں پاکستانی حکمرانوں کی ملی بھگت سے ہوا تھا تا کہ امریکیوں کو سٹرنگر میزائلوں کی چیکنگ سے دور رکھا جا سکے، اوجڑی کیمپ جیسے خوفناک واقعہ کے باوجود دس بڑے شہروں میں ایمونیشن ڈپو رہائشی علاقوں میں ہی کام کر رہے ہیں جو کسی بھی وقت بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتے ہیں، فیصلے میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ رہائشی علاقوں کو ایسے ممکنہ حادثات سے تحفظ فراہم کیا جائے اور ایمونیشن ڈپوں کو شہری علاقوں سے دور منتقل کیا جائے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ حکام متبادل انتظامات کرنے کی بجائے بلا جواز پابندیاں عائد کرنے میں مصروف ہیں جو شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، عدالت نے ورکس آف ڈیفنس ایکٹ 1903کی دفعہ 3اور 7کو آئین کے آرٹیکل 23اور 24 سے متصادم قرار دیتے ہوئے بھی کالعدم کر دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ ورکس آف ڈیفنس ایکٹ 1903غلامی کے دور کا قانون ہے جو برصغیر میں غلاموں کی زمینوں پر قبضے کے لئے بنایا گیا تھا اور اس قانون کو پاکستان کے موجودہ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق پر ترجیح نہیں دی جا سکتی، آئین کا آرٹیکل 23شہریوں کو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی جائیداد حاصل کر سکتے ہیں جبکہ آرٹیکل 24کے تحت کسی بھی شہری کو زبردستی اس کی ملکیتی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا،آزاد مملکت کے آئین کی موجودگی میں اگر برطانوی دور کے قانون کا اطلاق کیا جائے تو یہ شہریوں کو غلامی کے دن یاد کرواتا ہے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اس بات کو آئینی تحفظ ہے کہ جائیدادیں قانون کے مطابق ہوں گی لیکن طویل اور غیر معینہ مدت تک جائیدادوں پر تعمیرات کرنے پر پابندیاں آئین کی خلاف ورزی ہیں، آئین کے آرٹیکل 1999کے تحت عدالت کا یہ اختیار ہے کہ وہ بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ کرے، عدالت نے درخواست گزار خاتون کی دو کنال دو مرلے اراضی پر تعمیرات پر پابندی کالعدم کرتے ہوئے وزارت دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک سال کے اندر اندر ٹھوکر نیاز بیگ ایمونیشن ڈپو کو شہری علاقے سے منتقل کرنے کے لئے اقدامات کرے اور اگر درخواست گزار خاتون کی جائیداد لینی ہے تو اسے مارکیٹ ویلیو کے مطابق معاوضہ ادا کر کے ایکوائر کیا جائے۔