تعلیم کا مقصد نوکری کی بجائے زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے اور اپنی اہمیت کو سمجھنا ہے، وائس چانسلر ایبٹ آباد یونیورسٹی

منگل 20 مارچ 2018 12:37

ایبٹ آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 مارچ2018ء) تعلیم کا مقصد طلبہ کو صرف نوکری کیلئے تیاری نہیں بلکہ انہیں زندگی کے تمام چیلنجز سے نمٹنے اور اپنی اہمیت کو سمجھنا ہے، اعلیٰ تعلیم کیلئے ابھی تک کی جانے والی کوششیں انتہائی کم ہیں، ان حالات میں ہم اپنے طلبہ سے کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ آکسفورڈ ایم آئی ٹی یا دنیا کے دیگر اداروں کے طلبہ کا مقابلہ کرسکتے ہیں، ہمارے پاس علم، مہارت، شعور اور خود اعتمادی کی کمی ہے، ہم ابھی تک دوسروں کی سوچ اور تخلیق کے انحصار پر ہی کام چلا رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار وائس چانسلر ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر افتخاراحمد نے یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں تین روزہ انٹرنیشنل کانفرنس جس کا عنوان ’’کلاسیکی کے پیچھے سائنس‘‘ تھا، میں اپنے مقالہ کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے بہترین اعلیٰ تعلیم اداروں سے سکالرز نے شرکت کی اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے حوالہ سے اپنی اپنی تحقیق کا تبادلہ شرکاء کے ساتھ کیا۔

وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے شرکاء سے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ایک تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اگر کوئی استاد جو اپنے مضمون میں انتہائی مہارت رکھتا ہو اور وہ کلاس میں سو فیصد ٹائم اور توجہ بھی دے تو پھر بھی علم کا صرف پانچ فیصد وہ طلباء و طالبات کو منتقل کر سکتا ہے، پڑھائی 20 فیصد تک طلبہ کو رہنمائی دیتی ہے جبکہ 75 فیصد علمی کام علم کی منتقلی کا ذریعہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء اور دیگر پروفیشنل سے 100 فیصد توقع ہیں لیکن کیا آپ جس تکنیک سے ہم اپنے گریجویٹس کو تیار کر رہے ہیں کیا وہ قوم کی توقعات پر پورا اتر سکتے ہیں یا اتر رہے ہیں، ہمارے کچھ طلبہ یقیناً بہت اچھے نتائج دیتے ہیں لیکن وہ ہماری کاشوں یا اس نظام تعلیم کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بل بوتے پر قوم کی توقعات کو کسی حد تک پورا کر رہے ہیں، آج دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے، ہمیں اپنے طلبہ کو ترقی یافتہ دنیا کے معیار کے مطابق تیار کرنا ہو گا تاکہ وہ پاکستان کیلئے ایک اثاثہ ثابت ہوں اور دنیا کی معاشی و دیگر مارکیٹ پر اپنی دھاک جماسکیں لیکن سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس کیلئے تیار ہیں، کیا کبھی یونیورسٹی اساتذہ نے کبھی یہ سوچ کر کلاس روم میں گئے ہیں کہ وہ آج اپنے طلبہ کو اپنے مضمون میں ایسی تیاری کروائیں کہ وہ پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک میں نوکری کیلئے جائے تو وہ ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کر سکے یا ہمارے طلبہ نے اس گلوبل مارکیٹ میں نوکری کے حوالہ سے اپنے آپ کو تیار کرنے کیلئے سنجیدگی سے سوچا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے کہا کہ ہمیں اپنے نظام تعلیم میں اصلاحات لانی ہوں گی اور استاد کی ذمہ دار اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ہے، ہمیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا، ہمیں بطور استاد یہ تہیہ کرنا ہو گا کہ ہمیں اپنی ذمہ داریاں اور قوم کی توقعا ت پر پورا اترنا ہے، ہمیں اپنے طلبہ کو ایسا تیار کرنا ہے کہ وہ تمام چیلنجز کا مقابلہ دلیری کے ساتھ کرسکیں، ہمیں طلبہ کی تربیت ایسی کرنا ہوگی کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کیلئے بھی ایک اثاثہ ثابت ہوں گے۔

اس موقع پر شرکاء کی جانب سے مختلف سوالات بھی کئے گئے ۔ شرکاء نے لیکچرکو انتہائی مفید قرار دیا اور کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد کے اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی کے حوالہ سے سوچ انتہائی رہنما سوچ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی بہتری سنجیدگی کے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :