2017 میں دہشتگردی کے نتیجے میں ہلاکتوں میں کمی ہوئی ،ْ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان

مسیحیوں، احمدیوں، ہزارہ، ہندوؤں اور سکھوں سمیت تمام اقلیتوں کو حملوں کا سامنا رہا ،ْ رپورٹ 7 میں ملک بھر کی عدالتوں میں 3 لاکھ 33 ہزار 103 کیسز زیرسماعت رہے جبکہ 63 مجرموں کو پھانسی لگائی گئی

پیر 16 اپریل 2018 17:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اپریل2018ء) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حالیہ رپورٹ میں کہاہے کہ 2017 میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں کمی واقع ہوئی تاہم مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں کمی نہ آسکی۔2017 میں انسانی حقوق کی صورت حال' کے عنوان سے جاری کی گئی رپورٹ کو معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر سے منسوب کیا گیا ہے ،ْجو رواں برس 11 فروری کو انتقال کرگئی تھیں اور جن کی پوری زندگی انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرتے ہوئے گزری۔

رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاکتوں میں کمی آئی، لیکن مسیحیوں، احمدیوں، ہزارہ، ہندوؤں اور سکھوں سمیت تمام اقلیتوں کو حملوں کا سامنا رہا، خصوصاً توہین مذہب کے کیسز زیادہ سامنے آئے۔

(جاری ہے)

2017 میں مشتعل ہجوم کے حملوں میں اضافہ ہوا اور دھرنوں اور ریلیوں سے نمٹنے اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کا فقدان رہا۔دوسری جانب پر امن احتجاج کے حق کو محدود کرنے کے لیے دفعہ 144 کا بے جا استعمال کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق 2017 میں ملک بھر کی عدالتوں میں 3 لاکھ 33 ہزار 103 کیسز زیرسماعت رہے جبکہ 63 مجرموں کو پھانسی لگائی گئی۔انکوائری کمیٹی کو جبری گمشدگی کے 868 کیس موصول ہوئے اور 555 کیس نمٹائے گئے۔2017میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا اور پہلے 10 ماہ میں خواتین کے خلاف جرائم کے 5 ہزار 660 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔رپورٹ کے مطابق نومبر 2017 تک پاکستانی جیلوں میں مجموعی طور پر 82 ہزار 591 قیدی تھے، جن میں خواتین قیدیوں کی کل تعداد 1442 تھی۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک کی جیلوں میں گنجائش سے کہیں ذیادہ قیدیوں کو رکھا گیا۔پنجاب کی جیلوں میں 50 ہزار 289 قیدی تھے، جبکہ گنجائش 32 ہزار 235 قیدیوں کی تھی۔سندھ کی جیلوں میں 19 ہزار 84 قیدی تھے جبکہ گنجائش 12 ہزار 613 قیدیوں کی تھی۔خیبرپختونخواکی جیلوں میں 10 ہزار 811 قیدی جبکہ گنجائش 8 ہزار 395 کی تھی۔رپورٹ کے مطابق صحت و تعلیم کے شعبے میں 2017 میں بھی صورت حال تشویش ناک رہی۔

دنیا بھر میں پاکستان تپ دق کی شرح میں سرفہرست جبکہ ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ میں دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر رہا۔ملک میں تھیلیسیمیا اور ایڈز کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا، جبکہ پاکستان پولیو کی منتقلی کو مکمل روکنے میں بھی ناکام رہا۔رپورٹ کے مطابق ملک میں 3 کروڑ 55 لاکھ بالغ افراد شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔رپورٹ کے مطابق 56 لاکھ بچے پرائمری اسکولوں اور 55 لاکھ بچے سیکنڈری اسکولوں سے باہر ہونے سے دنیا بھر میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد پاکستان میں سب سے زیادہ رہی۔

2017 کی مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سراؤں اور ٹرانس جینڈرز کی علیحدہ کیٹیگری شامل کی گئی اور ٹرانس جینڈر کیٹیگری کے تحت پاسپورٹ کا اجرا کیا گیا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں سفر کے حوالے سے دوسرا ناپسندیدہ ترین پاسپورٹ رہا۔ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پانی کے استعمال میں چوتھے نمبر پر رہا، لیکن صرف 36 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہے۔

2025 تک پانی کے مکمل خاتمے کے خطرے کے باوجود پالیسی سازی اور جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔دوسری جانب پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کی اوسط شرح عالمی ادارہ صحت کی طیکردہ حدود سے 4 گنا زیادہ رہی۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کی تعداد 25 لاکھ سے زائد ہے جبکہ 10 لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین یہاں آباد ہیں۔

متعلقہ عنوان :