پیاف نے رمضان کے دوران صنعتوں میں دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے حکومتی فیصلے کو مسترد کردیا

صنعتی شعبہ کی ترقی، پیداوای صلاحیت میں اضافے ،بیروز گاری میں کمی کے لئے صنعتوں کو چوبیس گھنٹے بلا تعطل بجلی و گیس فراہم کی جائے

جمعہ 18 مئی 2018 18:50

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 مئی2018ء) پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسو سی ایشنز فرنٹ(پیاف) نے رمضان المبارک کے دوران صنعتوں میں دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ صنعتی شعبہ کو تباہی سے دوچار کر دے گا۔ صنعتی شعبہ کی ترقی، پیداوای صلاحیت میں اضافے اور سب سے بڑھ کر بیروز گاری میں کمی کے لئے از حد ضروری ہے کہ صنعتوں کو چوبیس گھنٹے بلا تعطل بجلی و گیس فراہم کی جائے۔

برآمدی صنعتوں کو رمضان المبارک میں اپنے آپریشنز کو رواں رکھنے کے لئی85 میگا واٹ بجلی درکار ہوتی ہے بصورت دیگر انھیں ایک شفٹ کو بند کرنا پرتا ہے جس سے پیداوارمیں کمی اور بیوز گاری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چیئرمین پیاف عرفان اقبال شیخ نے سیئنر وائس چیئرمین تنویر احمد صوفی اور وائس چیئرمین خواجہ شاہزیب اکرم کے ہمراہ گزشستہ روز صنعتکاروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت وسیع تر ملکی مفاد میں صنعتوں کی دس گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کا فیصلہ واپس لے ۔

(جاری ہے)

ملکی صنعت کے لیے بجلی کے بغیر چلنا محال ہے۔پیداواری شعبہ مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ مزید براں غیر اعلانیہ لوڈشیدنگ نے انڈسٹریز کے ساتھ ساتھ چھوٹے تاجروں اور عوام کو بھی پریشانی میں مبتلا کر کھا ہے اور اس پرا بھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی چوری روکنے کے بھی سختی سے انتظامات کئے جائیں۔

حکومت کے بجلی چوری وکنے کے اقدام سے تمام دستیاب وسائل انڈسٹری کو منتقل ہوں گے اورصنعتیں اپنی کیپیسیٹی کے مطابق کام کر سکیں گی ۔ بجلی چوری کے نتیجے میں ملک کو نا صرف سالانہ ابوں روپے کا نقصان پہنچتا ہے بلکہ توانائی کا بحران مزید سنگین ہو جا تا ہے اور اس نقصان کو ریگولر صارفین سے پورا کیا جاتا ہے جو باقاعدگی سے اپنا بل ادا کرتے ہیں جو پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنتا ہے ا نھوں نے مزیدکہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی چو ری روکنے کے لئے ایک جامع لائحہ عمل اورقانون سازی کو یقینی بنانے کے لئے راست اقدامات کئے جائیں اور بجلی چوری کے خلاف کاروائیوں کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے، اس کے مثبت نتائج بر آمد ہوں گے اور اس سے بجلی کے بحران پر قابو پانے میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔