دینی مدارس کوکنٹرول کرنے کا سندھ حکومت کا منصوبہ آخری وقت میں تبدیل

ترمیمی بل اسمبلی کے رواں اجلاس سے پاس کرانے کی حکمت عملی عین وقت پرموخرکردی گئی

ہفتہ 26 مئی 2018 18:16

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مئی2018ء) دینی مدارس کوکنٹرول کرنے کا سندھ حکومت کا منصوبہ،پارٹی قیادت کا اشارہ نہ ملنے پر سندھ حکومت نے فیصلہ آخروقت میں بدل دیا،ترمیمی بل اسمبلی کے رواں اجلاس سے پاس کرانے کی حکمت عملی عین وقت پرموخرکردی گئی،پہلے سے رجسٹرڈ دینی مدارس کوہر2 سال بعد رجسٹریشن کی تجدید کا پابند جبکہ نئے دینی مدارس کے قیام پرپابندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

سندھ میں دینی مدارس کوکنٹرول کرنے کے لیے حکومت سندھ نے 1860 ء کے سوسائٹی ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ عین آخری وقت میں مخرکردیا اس سے قبل دینی مدارس کوکنٹرول کرنے کے لیے حکومت سندھ نے دینی مدرسہ ایکٹ ترمیمی بل سندھ اسمبلی میں جمع کرادیا تھا جسے اسمبلی کیموجودہ آخری اجلاس سے منظورکرایا جانا تھا۔

(جاری ہے)

سندھ کی وزارت قانون اوروزارت مذہبی امورکی جانب سے ترمیمی بل میں تجویز کیا گیا تھا کہ سندھ میں نئے دینی مدارس کے قیام کے لیے ضلعی پولیس کے سربراہ اور متعلقہ انتظامیہ سے این او سی لینا لازمی ہوگا جس کے بغیرصوبے میں نیا دینی مدرسہ نہیں کھولا جاسکے گا جبکہ پہلے سے قائم اوررجسٹرڈ دینی مدارس کے لیے ترمیمی بل میں لازم قراردیا گیا تھا کہ رجسٹرڈ دینی مدرسہ کو ہردو سال بعد رجسٹریشن کی توثیق کرانا ہوگی علاوہ ازیں سندھ میں کسی بھی ایسے شخص کونئے دینی مدرسہ کے قیام کا اجازت نامہ جاری نہ کرنے کی ترمیم بھی بل کا حصہ تھی جس کے تحت کریمنل ریکارڈ اور فورتھ شیڈول میں شامل کسی بھی شخص کونئے دینی مدرسہ کے قیام کی این اوسی جاری نہ کرنے کی شرط عائد کی گئی تھی ۔

ترمیمی بل میں غیرملکی طلبہ کے لیے داخلہ سے متعلق نئی پالیسی متعارف کرانے کی تجویز دی گئی تھی اوریہ شرط عائد کی گئی تھی کوئی بھی دینی مدرسہ صرف غیرملکی طلبہ کوداخلہ نہیں دے سکیں گے کسی بھی دینی مدرسہ کوزیرتعلیم مقامی طلبہ کی مجموعی تعداد کے مقابل صرف دس فیصد غیرملکی طلبہ کوداخلہ دینے کی اجازت ہوگی جبکہ حکومتی اجازت کے بغیرقائم ہونے والے کسی بھی دینی مدرسہ کوغیرقانونی تصورکیا جائے گا۔

ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق رجسٹرڈ دینی مدارس کو حکومت سندھ کا منظور کردہ عصری نصاب پڑھانا دینی مدارس کے لیے لازمی ہوگا اور کریمنل ریکارڈ کی حامل دینی اور مذہبی شخصیات دینی مدرسہ قائم کرنے اوراسے چلانے کی اہل نہیں ہونگی۔ معتمد ترین ذرائع کا کہنا ہے کہ عین انتخابات کے موقع پردینی مدرسہ سے متعلق نئی قانون سازی سے پیدا ہونے والی ممکنہ محاذآرائی سے بچنے کے لیے پیپلزپارٹی کی قیادت نے صوبائی حکومت کودینی مدرسہ سے متعلق قانون سازی مخرکرنے کی ہدایت کی جس کے بعد سندھ اسمبلی کے رواں اجلاس کے ایجنڈے پر1860ء کے سوسائٹی ایکٹ میں ترامیم کا بل مخرکردیاگیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل فروری 2016 ء میں سندھ اسمبلی میں 1860 کے سوسائٹی ایکٹ میں ترمیم کے بل کودینی مدارس اور دینی تعلیمی اداروں کیخلاف نئی سازش قراردیتے ہوئے مدارس تنظیمات نے مسترد کردیا تھا۔