کوئٹہ،وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے ہائی کورٹ کے جج کے رویئے کے خلاف لکھے گئے خط سے وکلاء و سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی

جبکہ بعض وکلاء اور سیاستدانوں نے معاملے کو سلجھانے کیلئے مفاہمت کی کوششیں شروع کردیں،خط سوشل میڈیا کے علاوہ مختلف سیاسی ، سماجی ، صحافتی اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے اس تمام معاملے کے درپردہ حقیقت کچھ اور ہے اور اس میں وہ متعلقہ حکومتی عناصر ملوث ہیں جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھرتیوں اور ترقیاتی اسکیمات سے متعلق کیسز میں رعایت کیلئے کوشاں تھے، بعض وکلاء کا موقف

منگل 29 مئی 2018 23:31

کوئٹہ،وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے ہائی کورٹ ..
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 مئی2018ء) وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کے رویئے کے خلاف چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کو لکھے گئے خط سے وکلاء برادری اور سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہردوڑ گئی ہے جبکہ بعض وکلاء اور سیاستدانوں نے معاملے کو سلجھانے کیلئے مفاہمت کی کوششیں شروع کردیں۔

تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے ہائی کورٹ کے جج کے رویئے کے خلاف لکھا گیا خط سوشل میڈیا کے علاوہ مختلف سیاسی ، سماجی ، صحافتی اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے جبکہ بعض وکلاء کا کہنا ہے کہ اس تمام معاملے کے درپردہ حقیقت کچھ اور ہے اور اس میں وہ متعلقہ حکومتی عناصر ملوث ہیں جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھرتیوں اور ترقیاتی اسکیمات سے متعلق کیسز میں رعایت کیلئے کوشاں تھے کیونکہ متذکرہ ہائی کورٹ کے معزز جج کے پاس یہ کیسز زیر سماعت تھے اور دبائو کے باوجود قانونی طور پر وہ اس میں حکومت کو کوئی ریلیف دینے کے حق میں نہیں تھے۔

(جاری ہے)

ان وکلاء کے مطابق معزز جج نے اگر اپنے علاقے کیلئے کسی اسکیم کی سفارش کی بھی ہے تو جو بات خط میں لکھی گئی ہے وہ اس کے برعکس ہے یہ اسکیم ایک ٹیوب ویل کی تنصیب کے حوالے سے تھی جو کہ علاقے کی مسجد کیلئے نصب ہونا تھا یہ اسکیم خالصتاً عوامی اور اجتماعی نوعیت کی تھی جسے ایک موثر ہتھیار کے طور پر معزز جج کے خلاف استعمال کیا گیا ان وکلاء کے مطابق خط میں معزز جج کیلئے جو سخت الفاظ استعمال کئے گئے اور ملکی اداروں کو جس طرح سے ملوث کیا گیا وہ نہ تو جوڈیشری کے شایان شان ہے نہ ہی ملکی مفاد میں ہے۔

ان وکلاء کا مزید کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں جب صوبے میں امن و امان بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے ،انتخابات قریب ہیں اور موجودہ مخلوط حکومت اپنی مدت پوری کرکے جارہی ہے ایسے میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان اختلافات اور بداعتمادی پیدا کرنا کسی بھی طرح صوبے کے اس ماحول کیلئے خوش آئند نہیں اس لئے وکلاء نے معاملے کو طول دینے کے بجائے مفاہمت کیلئے کوششوں کا آغاز کردیا ہے جس میں انہیں بعض سنجیدہ حلقوں اور سیاستدانوں کی بھرپور معاونت حاصل ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کے خط کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر میر عبدالقدوس بزنجو اور جوڈیشری سے رابطہ کیا گیا اور معاملے کو رفع دفع کرنے کیلئے دونوں اطراف سے گزارش کی گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوا تو وکلاء جوڈیشری اور بیورو کریٹس کے درمیان جنگ چھڑنے کے قوی امکانات ہیں جس کے بُرے اثرات بیورو کریسی، جوڈیشری اور سیاستدانوں پر مرتب ہوسکتے ہیں ۔قانونی ماہرین کی یہ رائے ہے کہ اس معاملے کو طول دینے اور آگ کو مزید بھڑکانے کے بجائے اس پر پانی ڈالنے کی ضرورت ہے اور یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے۔