بلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام کوئٹہ میں دوسرے روز بھی احتجاجی دھرنا جاری رہا

جمعرات 31 مئی 2018 18:40

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 مئی2018ء) بلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام کوئٹہ میں دوسرے روز بھی احتجاجی دھرنا جاری رہا، وزیراعلیٰ کی جانب سے پروفیسرز کے لئے کئے گئے اعلانات پر عملدرآمد نہ ہونے کیخلاف مسلسل دوسرے روز بھی سینکڑوں مرد و خواتین پروفیسرز شدید گرمی کے باوجود دھرنے میں موجود رہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کالج اساتذہ کے لئے ہائیر ایجوکیشن الاونس سمیت دیگر اعلانات کئے تھے جن پر ابتدائی عملدرآمد کے بعد مزید کارروائی روک دی گئی ہے مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف گزشتہ روزبلوچستان پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام ریلی نکالی گئی اور بعد ازاں پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا دیا گیا جو جمعرات کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہا دھرنے میں خواتین پروفیسرز کی بھی بڑی تعداد موجود رہی جبکہ اس دوران بی پی ایل اے کے مختلف یونٹس کے نمائندہ وفود، مختلف سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی جانب سے بھی یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو دھرنے کے دوسرے روز مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بی پی ایل اے کے صدر پروفیسر آغا زاہد، جنرل سیکرٹری پروفیسر نذیر لہڑی، عین الدین کبزئی، خدائے رحم بلوچ و دیگر مقررین نے کہا کہ بیورو کریسی تسلیم شدہ اور منظور شدہ مطالبات اور وزیر اعلیٰ کے کئے گئے اعلانات پر عملدر آمد نہ کرکے تعلیم دشمنی کا ثبوت دے رہی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کالج اساتذہ نے صوبے میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے فروغ میں اپنا فعال کردار ذمہ داری سے ادا کیا ہے مگر بیورو کریسی مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ بیورو کریسی کے لئے کتاب اور قلم کوئی معنی نہیں رکھتا انہوں نے مطالبہ کیا کہ بی پی ایل اے کے تمام مطالبات کی منظوری کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کیا جائے نوٹیفکیشن کے اجراء تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

درایں اثناء گزشتہ روز بلوچستان نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی و صوبائی رہنمائوں پر مشتمل وفود نے احتجاجی کیمپ میں آکر یکجہتی کا اظہار کیا اور بی پی ایل اے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہوئے بیورو کریسی کے تاخیری حربوں کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ پروفیسرز کے مطالبات مان کر ان کا وقار مقدم رکھا جائے تاکہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے فروغ تعلیم کے لئے اپنا فعال اور متحرک کردار ادا کرسکیں۔