شنگھائی تعاون تنظیم کو بین الاقوامی برادری میں زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے

موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں تنظیم کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی جا رہی ہے ، ڈینگ ہاہو بھارت اور پاکستان کی شمولیت تنظیم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ہم آہنگی کا مظہر ہے ،پیپلز ڈیلی کو انٹرویو

بدھ 6 جون 2018 13:40

بیجنگ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 06 جون2018ء) دنیاکی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیموں کی طرح شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے رکن ممالک کی آبادی قربیاً 3بلین ہے جو کہ دنیا کی آبادی ایک تہائی ہے اور 2017اس کی پہلی توسیع کے بعد اس کی مجموعی قومی پیداوار 16ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے ،تنظیم کی2017 کی سربراہی کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے اس کی توسیع کے بعد پہلی سربراہی کانفرنس 2008پروگرام کے مطابق 9 جون سے 10 جون تک منعقد ہو گی ،اس کانفرنس کے حوالے سے دنیا بھر سے اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ چین دنیا کے مستقبل کے علاوہ دنیا میں کردار ادا کریگا۔

چینی جریدہ پیپلز ڈیلی نے بین الاقوامی تعلقات کے ممتاز ماہرین کے انٹرویو کئے ہیں جنہیں یقین ہے کہ ایس سی او سربراہی کانفرنس زیادہ غیرجانب دار اور کھلی دنیا کو فروغ دیگی،جرید ہ کے مطابق شنگھائی روح غیر وابستگی عدم محاذ آرائی پر کاربند ہے جو کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں ہیں ۔

(جاری ہے)

سرد جنگ کی ذہنیت کے مقابلے میں شنگھائی روح سلامتی کے نئے نظریے کو فروغ دیتی ہے اس روح کو ایس سی او کے رکن ممالک اور تنظیم کے دوسرے ممالک نے اپنایا ہے ،شنگھائی تعاون تنظیم مطالعہ کے چینی مرکز کے سیکرٹری جنرل ڈینگ ہاہو نے جریدہ کے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان اور بھارت کا فعال الحاق تنظیم کے بڑھتی ہوئی پذیرائی اور ہم آہنگی کی وضاحت کیلئے کافی ہے ،ڈینگ نے کہا کہ ایس سی او کی اہمیت کا اظہار موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ممالک کو تنازعات سے نمٹنے اور باہمی اعتماد کی تعمیر کیلئے پلیٹ فورم مہیا کرتا ہے اس طرح موجودہ عالمگیر مخالف اور یکطرفہ ازم رجحان کے ضمن میں چیلنجوں کو حل کیا جا سکے گا،جریدہ کے مطابق ایس سی او کی 2018سربراہی کانفرنس کی اہم باتوں میں سے ایک بات عالمی تعاون کی چینی تنظیم ہو سکتی ہے ،خیال کیا جاتا ہے کہ چین علاقائی تنازعات کے علاوہ شامی بحران جیسے متنازعہ مسائل کے حل تجویز کریگا اور تعاون کے معاہدوں اور منصوبوں کے ذریعے بین الاقوامی معاشرے میں عدم استحکام کی مذمت کیلئے باہمی اعتماد کو فروغ دیگا۔