وفاقی حکومت 800ارب روپے بلوچستان کا مقروض ہے،ڈاکٹر اسحاق بلوچ

منگل 12 جون 2018 18:44

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 جون2018ء) چیف منسٹر پالیسی ریفامز یونٹ(سی ایم پی آر یو) کے چیف کوارڈی نیٹرڈاکٹر اسحاق بلوچ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت 800ارب روپے بلوچستان کا مقروض ہے،پاکستان میں وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو معلومات فراہم نہیں کرتی، حکومت بلوچستان تحریری طور پر وفاق سے گیس کی سبسڈی کی تفصیل معلوم کرنا چاہا لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا، بلوچستان میں چیف منسٹر پالیسی ریفارم یونٹ کے قیام کا مقصد 18ویں ترمیم کے بعد صوبے میں اختیارات کا استعمال اور قانون سازی کرنا تھا، رائٹ ٹو انفارمیشن کے بل میں حائل رکاوٹیں ختم کرکے اسے قانونی شکل دیدیا جائے ۔

سماجی تنظیم ایڈ بلوچستان کے زیر اہتمام تعبیر کے تعائون سے منعقدہ رائٹ ٹو انفارمیشن بل سے متعلق صوبائی مشاورتی نشست میں نیشنل پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر اسحاق بلوچ، تعلقات عامہ کے نور کھیتران، سابق ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ نور خان محمد حسنی ، سی پی ڈی آئی کے رزاق بلوچ، عورت فائونڈیشن کے علاوالدین خلجی، صوبائی محتسب کے منورشاہ ،سماجی بہبود کی سلمیٰ قریشی، سابق ڈائریکٹر انسانی حقوق سعید احمد، ایڈ بلوچستان کے عادل جہانگیر، جبار خان اور دیگر سرکاری محکموں اور سماجی اداروں کے نمائندوں شرکت کیں۔

(جاری ہے)

اس موقع پر بلوچستان میں فریڈم انفارمیشن ایکٹ2005ء اور رائٹ ٹو انفارمیشن کے موجودہ بل پر بحث کی گئی۔ ایڈ بلوچستان کی جانب سے نشست کے شرکاء کو آر ٹی آئی بل سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی ۔ ناصر تحسین نے شرکاء کو بتایا ،اقوام متحدہ کے ایس ڈی جی 16.10ایکسس ٹو انفارمیشن سے متعلق ہے جس میں شہریوں کو پبلک سیکٹر کے معلومات تک رسائی دی جاتی ہے، پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن بل سے متعلق صوبائی کولیشن بنائے گئے ہیں جو ایک نیشنل کولیشن کی شکل اختیار کرے گی، منصوبے کے تحت بلوچستان میں آر ٹی آئی پر ایک تحقیق کرنی ہے جس پر ایڈووکیسی کریں گے لوگوں کی رائے اکھٹا کرکے انہیں ایک چارٹر کی شکل میں بیوروکریسی کے سامنے پیش کریں گے تاکہ بپلک ایکسس ٹو انفارمیشن کو بہتر بنایا جاسکے۔

چیف منسٹر پایسی ریفامز یونٹ کے چیف کوارڈی نیٹر ڈاکٹر اسحاق بلوچ نے کہاوفاقی حکومت 800ارب روپے بلوچستان کا مقروض ہے،تفصیلات مانگی تو وفاق کی جانب سے گورنمنٹ آف بلوچستان کو معلومات نہیں دی گئی، حکومت بلوچستان نے ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں وفاق کو خط لکھا کہ ہمارے گیس سبسڈی سے متعلق تفصیل فراہم کردے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

نشست کے دوران شرکاء کا کہنا تھا کہ معلومات کی فراہمی سے سرکاری محکموں کی کارکردگی ظاہر ہوتی ہے،ان کا مثبت پہلوں نمایا ہوجاتا ہے،لیکن اس کے باوجود سرکاری محکموں کے آفیسران معلومات فراہم کرنے سے کتراتے ہیں،اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا، حکومتی رٹ کا بحال کرنا ضروری ہے،بچوں اور خواتین پر تشدد اور دیگر کیسز سے متعلق سوشل ویلفیئر کے پاس معلومات نہیں ہے، ہمیں یہ ڈیٹا دوسرے محکموںسے حاصل کرنا ہے، گذشتہ دس سالوں میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے،مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا، منتخب نمائندوں کے معلومات عوام کے سامنے ہے، میڈیا سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

شرکاء نے جہاں عام لوگوں کی معلومات تک رسائی کے موجودہ قوانین کو سراہا وہاں ان میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی اور اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ مستقبل کیلئے آر ٹی آئی کو ایک موثر قانون کی شکل دینے کا بھی عزم کیا۔ نشست میں شریک سرکاری و غیر سرکاری آفیسران کے مطابق2005ء میں وفاقی حکومت کے بعد بلوچستان پہلا صوبہ تھا جس نے معلومات تک رسائی کا قانون پاس کیا، 2005ء آرڈیننس عالمی دبائو کے باعث جلد بازی میں ترتیب دیا گیا کسی بھی شہری سے ایسی معلومات جوریاست پر اثرانداز نہ وہ شیئر کی جاسکتی ہیں ،ایف اُو آئی ایک ناقص قانون ہے جس میں بہت ساری پیچیدگیاں ہیں کوئی جواز پیدا کرکے درخواست کو خارج کیا جاسکتا ہے،ایف اُو آئی پر شعور اور لوگوں میں آگاہی پر کام نہیں ہوا ہے۔

بلوچستان میں اس قانون کے تحت شکایات نہیں آئے۔ ابھی تک جتنے بھی موضوعات کے معلومات مانگے گئے ہیں۔ بد قسمتی سے ان میں کسی نے یہاں کے تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی مسائل کے بارے میں نہیں پوچھا۔ لوگوں کو آگاہی دیا جائے تو ایف او آئی پر بھی عملدر آمد کرایا جاسکتا ہے۔ موجودہ بل میں محکموں کے منتظمین کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اس کا اپنا کمیشن ہوگا اور کمیشن کے ذریعے مطلوبہ شخص کو معلومات دی جائے گی۔ ترقی کے کاموں کے معلومات حاصل کرسکیں گے۔ صحت اور ہسپتالوں سے متعلق معلومات حاصل کرنا اس قانون کا حصہ ہونا چاہئے۔