جرگہ سسٹم بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے ،ْسپریم کورٹ

پارلیمنٹ کے پاس قانون منظور کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے ،ْ چیف جسٹس ثاقب نثار جرگہ یا پنچایت کے پاس سزائے موت اور بچیوں کو ونی کرنے کے اختیارات نہیں ہیں ،ْریمارکس

جمعرات 30 اگست 2018 17:19

جرگہ سسٹم بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے ،ْسپریم کورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 اگست2018ء) چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے جرگہ نظام کو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دے دیا۔ جمعرات کو عدالتِ عظمیٰ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جرگہ، ونی اور سوارہ کی رسموں کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ جرگہ نظام بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو کہتے ہیں کہ قانون بنا کر پارلیمنٹ میں بھیجے کیونکہ پارلیمنٹ کے پاس قانون منظور کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ پہلے ہی جرگہ نظام کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سب سے زیادہ جرگے صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جرگہ یا پنچایت کے پاس سزائے موت اور بچیوں کو ونی کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جرگہ یا پنچایت چھوٹے چھوٹے گھریلو معاملات اور دیوانی معاملات دیکھ سکتی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے جماعت الدعوة کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ کچھ کوگ جماعت الدعوة کے پاس چلے جاتے ہیں، اور وہ ان افراد پر بھاری جرمانے عائد کرتے ہیں جو غیر قانونی ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرلز عدالت کو بتائیں کہ کیا صوبوں نے اس حوالے سے کوئی قانون سازی کی ہی سماعت کے دوران ایک مرتبہ پھر اپنی بات دہراتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر دیوانی تنازعات میں جرگوں سے رجوع کیا جاتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن فوجداری مقدمات سے متعلق جرگے کے فیصلے پاکستان کے عدالتی نظام کے دائرہ اختیار کے خلاف ہیں۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔