سو سے زائد کتابوں کے مصنف منیر احمد بادینی کے فنی سفر کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد ،سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ودیگر کا خطاب

اتوار 9 ستمبر 2018 22:00

نوشکی۔09ستمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 ستمبر2018ء) زند اکیڈمی کے زیر اہتمام ضلعی انتظامیہ کی تعاون سے ناول نگار افسانہ نگار ڈرامہ نگار سفر نامہ نگار و سابق بیورو کریٹ اور سو سے زائد کتابوں کے مصنف منیر احمد بادینی کے فنی سفر کے عنوان سے ڈسٹرکٹ ہال میں ایک روزہ سیمینار منعقد ہوا۔سیمینار کی صدارت منیراحمدبادینی نے کی جبکہ کے مہمان خاص سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تھے ۔

سیمینار میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی سیمینار شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ڈپٹی کمشنر عبدالرزاق ساسولی ڈسٹرکٹ چیئرمین میر اورنگ زیب جمالدینی یار جان بادینی دانشوروقلمکارپروفیسر اے آر داد بلوچ پروفیسر رحیم مہر بلوچ پروفیسر شریف میربلوچ پروفیسر غلام دستگیر صابر ملک اکرم مینگل مجاہد بلوچ واجہ لطیف الملک بادینی عبدالباری بادینی ڈاکٹر عالم عجیب نے کہا ہے نوشکی کی سرزمین ہر حوالے سے زرخیز رہی ہے اس سرزمین نے میر گل خان نصیر آزاد جمالدینی ماما عبداللہ جان جمالدینی خلیفہ گل محمد نوشکوی میر عاقل خان مینگل گودی گوہر ملک اور منیر احمد بادینی جیسے سپوتوں کو جنم دی ہے جو بلوچی زبان و ادب کے حوالے سے گرانقدر خدمات سر انجام دیتے ہوئے بلوچی زبان کو اہم مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔

(جاری ہے)

منیر احمد بادینی کی تصانیف میں زندگی کے تمام شعبوں کو بڑی اچھی انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ انہوں نے بلوچی و بلوچستان کو اپنی تصانیف فکشن سفر نامہ،ڈرامہ اورخصوصاًاپنے ناولزمیں سیاسی تاریخ معاشرتی و قبائلی زندگی سمیت اہم موضوعات کوموضوع بحث بنایاہیں۔ منیراحمدبادینی نے نہ صرف سفرنامہ و ڈرامہ نویسی کو جدت دی بلکہ بلوچی فکشن خصوصاً ناول نگاری کوبام عروج تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔

بلوچی زبان و ادب کی تاریخ میں آج تک کسی نے بھی اتنا زیادہ کام نہیں کیاجبکہ اب تک منیراحمدبادینی کی ایک سو دس کتابیں شائع ہوچکی ہیں جبکہ کئی موضوعات پر کتابیں زیرطبع ہیں۔ مقررین نے کہاکہ دنیامیں صرف ان قوموں کی پہچان تاریخ اور ثقافت زندہ رہ سکتاہیں جو مادری زبانوں کو سب سے زیادہ ترجیح دیں آج کی ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ اور نصاب کا اگر جائزہ لیں تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ انہوں نے مادری زبانوں میں تعلیم کو ترجیح دی بدقسمتی سے ہمارے ہاں ریاست اور حکومتوں نے آج تک مادری زبانوں کی حقیقی سرپرستی نہیں کی جسکی وجہ سے پاکستان تعلیمی لحاظ سے دیگر ممالک کی نسبت بہت پہنچے رہ گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کسی بھی زبان کی ترویج وترقی میں عوام اور ریاست دونوں کا نہایت اہم کردار ہیں۔ حکومتی سرپرستی اور مادری زبانوں میں تعلیم نہ دینے کے باعث آج نہ صرف زبانوں کی بقاء کو خطرہ ہیں بلکہ نظا م تعلیم بھی بری طرح سے تنزولی کاشکار ہے۔ مقررین نے اس بات پر اطمینان کااظہار کیاکہ آج کی نوجوان نسل اپنی زبانوں کی ترویج وترقی کے لیے نہ صرف پرعزم ہیں بلکہ بھرپور توجہ بھی دے رہی ہیں۔

تمام مقررین نے منیراحمدبادینی کی بے مثال ادبی خدمات کو بھرپور انداز میں سرہاتے ہوئے کہاکہ منیراحمدبادینی کی تخلیقات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوے صدرمجلس منیراحمدبادینی نے کہاکہ اگرچہ میں نے ایک سو دس کتابیں لکھی ہیں لیکن ابھی تک میں خود بھی اپنی تخلیقات سے مکمل طور پر مطمئن نہیں کیونکہ ادب ایک مسلسل کام ہے اوریہ سلسلہ جاری وساری ہے۔

انہوں نے طلباء اور نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ نوجوان مستقبل کے معمار ہیں انھیں تعلیم کیساتھ اپنی زبان اور ثقافت کے لیے بھرپور کام کرنا چاہیے ۔دنیامیں وہی قومیں آج زندہ ہیں جنہوں نے اپنی زبان اور تعلیم کو اولیت دی ۔انہوں نے اس امید کا اظہارکیا کہ نوشکی کے نوجوان تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین ادب بھی تخلیق کررہے ہیں ۔