عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے دن ’’اُردو فکشن :ماضی ، حال اور مستقبل ‘‘ کے موضوع پراجلاس کا انعقاد

جمعہ 23 نومبر 2018 23:04

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 نومبر2018ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے دن منعقدہ تیسرے اجلاس کے موقع پر’’اُردو فکشن :ماضی ، حال اور مستقبل ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اجلاس سے معروف افسانہ نگار مرزا حامد بیگ، اسلم جمشید پوری، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر آصف فرخی، خالد محمود سنجرانی، اخلاق احمد، زیب اذکار حسین اور دینیل جوزف نے اپنے اپنے مقالے پیش کئے،اجلاس کی صدارت اسد محمد خاں، مستنصر حسین تارڑ، مسعود اشعر، عامر حسین اور نور ظہیر نے کی جبکہ نظامت کے فرائض اوجِ کمال نے انجام دیئے، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے شہر میرٹھ سے آئے ہوئے معروف افسانہ نگار اسلم جمشید پوری نے ’’جدید اُردو افسانہ موضوعات اور مسائل‘‘ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ جدید افسانہ جس طرح ہمارے سامنے آیا ہے اس نے ہمیں نئے طریقے سے سوچنے کا رنگ دیا ہے اب تک ہم نپے تلے اور بندھے ہوئے چلے آرہے تھے موضوعات کا تعین ہم کرسکتے ہیں جس کا طریقہ جدید افسانے نے دیا، سمجھتا ہوں کہ افسانہ 60سے 80ء کی دہائی تک رہا ہے، جدید افسانہ مزید بہتر ہوکر ہمارے سامنے آیا ہے ہمیں افسانے نے نئے ڈھنگ سے سوچنے کا طریقہ بتایا ہے، انہوں نے کہاکہ اس عہد نے ہمیں بہت عمدہ افسانے دیئے ہیں نئی نسل نے افسانے میں خامیاں دور کرتے ہوئے ایک نئے افسانے کی طرف قدم بڑھائے، 70ء کے بعد ایک اور نسل سامنے آگئی جس نے افسانے کو سنبھالا دیا اب افسانے میں زمینی حقائق کا دور شروع ہوگیا، انہوں نے کہاکہ اب جو اکیسویں صدی میں افسانہ لکھاجارہا ہے یہ بھی جدید ہے، جدید اُردو افسانہ ایک نئی انگڑائی کے ساتھ ہمارے سامنے آیا ہے، جدید اُردو افسانے کا سب سے بڑا مسئلہ ترسیل ہی ہے، انہوں نے کہاکہ 70،80ء کی دہائی کے بعد جدید اُردو افسانہ ایک نئے فلیور کے ساتھ ہمارے سامنے آیا ہے یہ اُردو افسانے کا منفرد اور اہم دور ہے، معروف دانشورمرزا حامد بیگ نے ’’اُردو فکشن کل آج اور آنے والا کل‘‘ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ اُردو افسانے کے حوالے سے تلخ حقائق بیان کئے، انہوں نے کہاکہ آج سے 115برس قبل اُردو کا پہلا افسانہ ’’نصیر اور خدیجہ‘‘ سامنے آیا تھا اس کے بعد بہت سارے لکھنے والے جن میں علی محمود،دردمند، اکبر آبادی،سجاد حیدر یلدرم، پریم چند اور دیگر سامنے آئے لیکن اولیت کے اعتبار سے پریم چند کا آٹھواں نمبر تھا جن کو ہم اب تک پہلا کہتے آرہے ہیں، انہوں نے کہاکہ پریم چند کے بعد نیاز فتح پوری سمیت بہت سے نام سامنے آئے جن سے افسانے کا چلن عام ہوا، پریم چند کا افسانہ ’’کفن‘‘ ایک شاہکار افسانہ ہے اسی طرح محمد علی نے گناہ کا خوف لکھا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ابتدائی دور کے افسانہ کا حاصل ہیں، انہوں نے کہاکہ یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہئے کہ 1960تا1980ء کا زمانہ بھی توجہ طلب ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی، اُردو افسانہ میں استعارہ اور تجرید صرف جدیدیت میں ہی بطور ٹولز نہیں رکھے گئے، انہوں نے کہاکہ1908ء میں پریم چند نے دُنیا کا سب سے انمول رتن لکھا، کرشن چندر نے 1948ء میں پہلا تجریدی افسانہ لکھا، انہوں نے کہاکہ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ ناقدین اور قارئین کبھی بھی تخلیق کاروں کے رہنما نہیں ہوتے کیونکہ تخلیق کار تو اپنی لے میں لکھتا ہے کہانی اور افسانے میں فرق ہوتا ہے، افسانہ کہانی نہیں ہوتا، افسانے میں کہانی پن کی آرزو گھامڑ پن کے سوا کچھ نہیں، انہوں نے کہاکہ ادب میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، محمد حسن عسکری نے مجموعی طور پر صرف 11افسانے لکھے، محمد حمید شاہد نے ’’معاصر اُردو فکشن۔

(جاری ہے)

ہیئت و اسلوب کے تجربات‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ فکشن کے باب میں فہمیدہ ریاض مرحومہ نے جو کام کیا اس پر بھی بات کی جانی چاہئے لوگ انہیں ایک عمدہ شاعرہ کے روپ میں تو جانتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنے ابتدائی زمانے میں کئی شاندار افسانے لکھے، انہوں نے کہاکہ ایک ہی منظر نامے میں اچھا افسانہ نگار افسانے کو مختلف رنگ دے لیتا ہے، ڈاکٹر آصف فرخی نے ’’اُردو افسانہ علامت و تجرید کے بعد‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ زندہ کہانی وہ ہے جو بہت سی باتوں کو جنم دے، پاکستان میں اُردو افسانے کا حال خود بھی مختصر افسانے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، افسانے کی تعریف اتنی سادگی کے ساتھ پیش نہیں کی جاسکتی، انہوں نے کہاکہ اُردو افسانے نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت رنگ بدلے ہیں اور وقت کا اثر قبول کیا ہے، انہوں نے کہاکہ فہمیدہ ریاض اُردو کی رجحان ساز شاعرہ تھیں مگر وہ افسانے بھی لکھا کرتی تھیں، ابتدائی دور ہی میں وہ بڑھتی ہوئی افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئیں مگر اُن کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی، زیب اذکار حسین نے ’’فکشن اور سماجی شعور‘‘ کے موضوع پر اپنے خطاب میں کہاکہ سماجی شعور ایک اضافی اصطلاح ہے، سماجی شعور کو ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھا جارہا ہے،سماجی شعور کی سطح اور گہرائی رائٹر کے وژن سے مشروط ہوجاتی ہے، خالد محمود سنجرانی نے ’’جدید اُردو افسانے کے سروکار‘‘ کے عنوان سے اظہارِ خیال کیا، اخلاق احمد نے ’’9/11کے بعد اُردو افسانہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ لکھنے والوں کو احساس ہوا ہے کہ دُنیا بدل رہی ہے اور تقسیم ہورہی ہے اس واقعہ نے اُردو افسانے پر کافی اثرات مرتب کئے، انہوں نے کہاکہ اُردو کے افسانہ نگاروں نے دانائی سے کام لیا اور صورتحال کو سمجھنے کے لئے وقت لیا، اُردو افسانے پر 9/11کے اثرات دیر سے آنا شروع ہوئے، صف اول کے تمام افسانہ نگاروں نے اس بارے میں لکھا ہے،دینیل جوزف نے ’’اُردو میں خواتین کے گمشدہ سفر نامے‘‘ کے حوالے سے اپنی جانب سے اب تک کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے آگاہ کیا، صاحب صدر اسد محمد خاں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ آج کے اجلاس میں جدید افسانے کے حوالے سے جو گفتگو کی گئی ہے وہ سحر حاصل ہے اور قاری کے ذہن میں بہت اچھے تاثرات قائم ہوں گے۔