چیف جسٹس پنجاب حکومت پر برہم ہو گئے

پنجاب حکومت سست روی کا شکار ہے۔ہم ایک کام کہتے ہیں وہ بھی پنجاب حکومت سے نہیں ہوتا۔پنجاب میں ہیلتھ کئیر کے سارے کام رکے ہوئے ہیں۔ابھی تک ہیلتھ کئیر بورڈ نہیں بنا اور بات کروں تو سرخیاں لگ جاتی ہیں، چیف جسٹس کے پی کے ایل آئی کیس میں ریمارکس

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعہ 14 دسمبر 2018 12:18

چیف جسٹس پنجاب حکومت پر برہم ہو گئے
اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔14 دسمبر 2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے پاکستان کڈنی ایڈ لیو ٹرانسپلاٹ کیس کی سماعت کی،چیف جسٹس کے استفسار پر ڈاکٹر سعدی اختر نے عدالت کو بتایا کہ میں نے پی کے ایل آ ئی سے کوئی تنخواہ نہیں لی۔ہم نے 21 کڈنی ٹرانسپلاٹ کیے ہیں اور کینسر کے علاج بھی کیے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریماریکس دئیے کہ گردوں کا آپریشن تو دوسری جگہوں پر بھی ہو رہے ہیں اور بنیادی طور پر لیور ٹرانسپلاٹ تھا۔آپریشن تھیٹر فعال نہیں ہے۔34 ارب روپے میں 5 اسپتال بن جاتے ہیں۔یہاں 22 ارب روہے لگا دئیے ہیں لیکن لیور ٹرانسپلاٹ کا ایک آپریشن نہیں ہوا۔ایک بچے کا آپریشن نہیں ہوا جب کہ ڈونر بھی موجود تھا۔کام ایک کا نہیں ہوا اور اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں چلے گئے۔

(جاری ہے)

22 ارب روپے کا جواب کون دے گا؟۔جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ ہمیں یہ بتایا جائے کہ پی کے ایل آئی کے لیے ٹرسٹ کی ضرورت کیا ہے؟ٹرسٹ تو ایک خاص تعلق کی وجہ سے سابق وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ ٹرسٹ نے 165 ملین فنڈز کا حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ہم نے گذشتہ سماعت پر پوچھا تھا کہ ٹرسٹ کا کیا کرنا ہے؟دو مرتبہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ یہ قانون تبدیل کر رہے ہیں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ ٹرسٹ کو رہنا چاہئیےیا نہیں۔ایڈشل سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ کو مکمل پرپوزل بنا کر بھیجی گئی ہے۔چیف جسٹس نے پنجاب حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ پنجاب حکومت سست روی کا شکار ہے۔ہم ایک کام کہتے ہیں وہ بھی پنجاب حکومت سے نہیں ہوتا۔پنجاب میں ہیلتھ کئیر کے سارے کام رکے ہوئے ہیں۔ابھی تک ہیلتھ کئیر بورڈ نہیں بنا اور بات کروں تو سرخیاں لگ جاتی ہیں۔سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی کی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے کا حکم دے دیا۔