صحافیوں کی جبری برطرفیوںکیخلاف بلوچستان سے تحریک کاآغازکرکے پورے ملک تک پھیلاناہوگا،

پی ایف یو جے مزیدخاموشی سے بیٹھنے کاوقت گزرچکا، ملکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر اخبارمالکان کی ورکردشمن پالیسیوںکاسلسلہ بہت دورتک جائے گا، صحافیوں کا کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب

پیر 17 دسمبر 2018 19:46

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 دسمبر2018ء) صحافیوں کی جبری برطرفیوںکیخلاف بلوچستان سے تحریک کاآغازکرکے پورے ملک تک پھیلاناہوگا، حالات کے پیش نظرمزیدخاموشی سے بیٹھنے کاوقت گزرچکا،ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر اخبارمالکان کی ورکردشمن پالیسیوںکاسلسلہ بہت دورتک جائے گا،آج بلوچستان اسمبلی اجلاس سے علامتی بائیکاٹ کااعلان کرتے ہیں۔

ان خیالات کااظہار پی ایف یو جے کے مرکزی سینئرنائب صدرسلیم شاہد،بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکریٹری ایوب ترین،بی یو جے کے رہنماء حافظ حمادسیاپاداورکوئٹہ پریس کلب کے صدررضاالرحمان نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔گزشتہ روزبلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام اخبارات اور ٹی وی چینلز سے صحافیوں کی جبری برطرفیوں کیخلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ا حتجاجی مظاہرہ کیا گیا،مظاہرے میں الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں سمیت ایکشن کمیٹی اخباری صنعت کے رہنماء بھی شریک تھے،مظاہرین نے پلے کارڈ اوربینراٹھائے تھے جن پر صحافیوں کی جبری برطرفیوںکیخلاف نعرے درج تھے۔

(جاری ہے)

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی سینئرنائب صدر سلیم شاہدکاکہناتھا کہ یہ صرف 6سوصحافیوں کو برطرف نہیںکیا گیا ہے بلکہ ان سے وابستہ ہزاروں افراد کارزق بندکردیاگیاہے،جنگ ہو یا ایکسپریس یاکوئی اورادارہ سب نے اس صوبے سے بہت پیسے کمائے اورتجوریاں بھر ی ہیں اور یہاں کے صحافیوں نے انہیں اس مقام تک پہنچاکر معاشی ترقی دی آج ان کو برطرف کیا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اخبارات سے ورکروںکوفارغ کرنے کیخلاف ملک بھرمیں مظاہرے کئے جارہے ہیں،افسوس کہ جن لوگوں کو نکالاگیا ہم ان کیلئے یہاں سراپااحتجاج ہیں وہ اس میں شریک نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس طرح ہم ڈرکرپیچھے رہے تو مزید لوگوں کو فارغ کیاجائے گا۔مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے سینئر رہنماء حافظ حماد اللہ سیاپاد کاکہناتھا کہ یہاں بہت بڑاالمیہ ہے کم تنخواہ پہ لوگوں سے 10گھنٹوں تک کام کراکے مذاق کیاجاتارہا اور اب مختلف میڈیا ہائوسز میں معاشی بحران کے نام پر سینکڑوں افراد کو فارغ کیا گیا ہے ، حکومتی مشاورت سے یہ کام ہوا ہے کیونکہ الجھن کابہانہ بناکر معاشی بحران کارونا سب سے پہلے حکومت نے رویا ،جس طرح حکومت نے دیگر محازمیں معاشی پالیسیاں ترتیب دیئے اسی طرح اخبار مالکان کو بھی کہا کہ اپنے ورکروں کی چھانٹی کریں ۔

انہوں نے کہا کہ اخبارمالکان بزنس کررہے ہیں صحافت نہیں ،روڈوں پرگھومنے والاوالے صحافت کررہے ہیں ،خبر کی تلاش سے لے کر تحقیق واشاعت صحافی کرتاہے عجیب لگتا ہے کہ مالکان صحافت کادعویٰ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنہوں نے صحافت کو زندہ رکھا وہ 8سے 10ہزارروپے کی اجرت پرکام کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جنگ اخبار سے کلاس فور کے 10ورکروں کو فارغ کیاگیا جبکہ مجموعی طورپر6افراد کو فارغ کیا گیا،ہم نے جدوجہد نہیں کی تو یہ معاملہ ڈیسک اورسلسلہ نیوزروم تک بھی پہنچ جائے گا۔

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کوئٹہ پریس کلب کے صدررضاالرحمان نے کہا کہ مالکان کی ورکردشمنی پر مبنی سوچ کاسلسلہ اب بھی چل رہا ہے یہ آئندہ مزید تیزہ کیساتھ آئے گا،آنے والے دن ورکروں کے حوالے سخت ہیں، اور حکومت خود اس میں ملوث ہے،اب ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ورکروں کے تحفظ کیلئے معاملے کاازخود نوٹس لے تو معاملات شاید بہترہوں۔

انہوں نے کہا کہ اخباری شعبہ ایک صنعت بن چکی ہے اورمالکان بزنس کررہے ہیں ،آج ورکروں کامعاشی قتل عام اور ان کااستحصال ہمارے قیادت کی نااہلی کاثبوت ہے ،اگرہم ہمت کیساتھ آگے بڑھیں گے تو معاملات بہترہوںگے۔انہوں نے کہا کہ آج چند لوگوں کی نکالاگیا کل بیوروچیفس تک بھی بات آسکتی ہے،لوگ ایک باہمت قیادت چاہتے ہیں اس ضمن میں ہمیں بلوچستان سے سنجیدہ تحریک کاآغازکرکے اسے ملک تک پھیلاناہے تاکہ جو ورکروں میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے اس کو ختم کیاجاسکے،ڈرکے مارے چپ بیٹھنے کاوقت گزرچکااب ہمیں میدان میں نکلنا ہوگا۔

اس موقع پر انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان سے جن اخبارات نے ورکروں کو فارغ کیا ہے ان کی انتظامیہ کو بلاکر معاملے پر بات کی جائے مسئلہ حل نہ کیا تو متعلقہ اخبارات کے اشتہارات بندکئے جائیں۔