میں سمجھا کوئی ان پڑھ ہے،آپکو تو عدالت میں بیٹھنے کا ضابطہ اخلاق پتہ ہونا چاہیے

فیلگ شپ ریفرنس کے دوران سرگوشیاں کرنے پر سابق لیگی وزیر طارق فضل چوہدری کو احتساب عدالت کے جج نے ڈانٹ پلادی

Syed Fakhir Abbas سید فاخر عباس منگل 18 دسمبر 2018 22:51

میں سمجھا کوئی ان پڑھ ہے،آپکو تو عدالت میں بیٹھنے کا ضابطہ اخلاق پتہ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 دسمبر2018ء) فلیگ شپ ریفرنس کے دوران مریم اورنگزیب اور طارق فضل چوہدری آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے کہ احتساب عدالت کے معزز جج ارشد ملک نے دیکھ لیا۔ جج ارشد ملک کا طارق فضل چوہدری سے کہنا تھا کہ میں سمجھا کوئی ان پرھ ہے،آپکو تو عدالت میں بیٹھنے کا ضابطہ اخلاق پتہ ہونا چاہیے۔تفصیلات کے مطابق فلیگ شپ ریفرنس کی احتساب عدالت میں سماعت کی گئی۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریفرنس کا سماعت کی۔اس موقع پر دوران سماعت مریم اورنگزیب اور طارق فضل چوہدری آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے کہ جج ارشد ملک نے دیکھ لیا۔اس پر جج ارشد ملک نے طارق فضل چوہدری کو روسٹرم پر بلا لیا اور بھری عدالت میں ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ میں یہ سمجھا کہ کوئی ان پڑھ آدمی ہے جو عدالت میں بیٹھا سرگوشیاں کر رہا ہے لیکن آپ تو پڑھے لکھے ہیں آپکو عدالت میں بیٹھنے کا ضابطہ اخلاق کا پتہ ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

اس پر طارق فضل چوہدری نے عدالت سے معافی مانگ لی،دوسری جانب مریم اورنگزیب، طارق فضل چوہدری کے کے طلب کئے جانے پر خاموشی سے عدالت سے نکل گئیں۔واضح ہو گزشتہ روز سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے حتمی دلائل مکمل کیے تھے۔فاضل جج نے فریقین کو قانونی نکات پر (آج) بدھ کو ایک بجے تک اضافی دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

فلیگ شپ ریفرنس میں خواجہ حارث مزید دستاویزات عدالت میں پیش کریں گے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ 24 دسمبر تک سنانے کا حکم دیا ہے ۔منگل کو سماعت کے دور ان نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ گلف اسٹیل ملز کی کسی دستاویز سے نہیں لگتا طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی تھے اور کسی دستاویز سے میاں شریف کا گلف اسٹیل سے تعلق ثابت نہیں ہوتا، اگر مان لیا جائے کہ گلف اسٹیل میاں شریف کی تھی تو لگتا ہے بینامی جائیداد رکھنا ان کی روایت ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاید نیشنلائزیشن کی طرح کے خوف سے 2001 میں بے نامی جائیداد بنائی گئی اور نواز شریف کی تقاریر سے بینامی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے۔نیب پراسیکیوٹر اصغر اعوان نے کہا کہ اس کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں، جائیداد کی ملکیت سے متعلق تمام دستاویزات ملزمان کی پرائیویٹ دستاویزات ہیں جب کہ ملزمان نے سپریم کورٹ میں ایک منی ٹریل دینے کی کوشش کی، درمیان میں قطری شہزادے کا خط بھی آگیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزمان کی طرف سے دی گئیں دستاویزات جائیداد کو درست ثابت نہیں کرتے اور وہ سپریم کورٹ میں جائیداد کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔نیب پراسیکیوٹر اصغر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعے ملزمان کو ایک اور موقع دیا تھا، یہی سوالات جے آئی ٹی کو دیے گئے تھے کہ جوابات ڈھونڈ دیں لیکن ملزمان جے آئی ٹی کے سامنے بھی ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا سپریم کورٹ نے فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کیس نیب کو بھیجا اور ملزمان کو تیسرا موقع دیا جس کے بعد نیب نے ملزمان کو بلایا کہ آکر مؤقف دیں لیکن یہ لوگ پیش ہی نہ ہوئے۔اس موقع پر جج ارشد ملک نے ریمارکس دیے یعنی بات مے فئیر سے فئیر تک پہنچ گئی جس پر کمرہ عدالت میں قہقے گونج اٹھے