نیشنل کانفرنس برائے لوکل گورنمنٹ کے شرکاء نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام کو بہترین قرار دیا، صوبائی وزیر بلدیات شہرام خان ترکئی

بدھ 16 جنوری 2019 18:32

پشاور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 جنوری2019ء) خیبر پختونخوا کے وزیر بلدیات شہرام خان ترکئی نے کہا ہے کہ سب سے بہترین لوکل باڈیز سسٹم خیبر پختونخوا کا ویلیج و نیبر ہوڈ کا غیر جماعتی بلدیاتی نظام ہے جو کہ بالکل گراس روٹ لیول پر موجود ہے اور بہترین نتائج کا حامل ہے، پنجاب اور بلوچستان میں ہمارے لوکل باڈیز سسٹم کو ماڈل بنا کر بلدیاتی نظام تیار کیا جا رہا ہے، 2001 اور 2005 کے بلدیاتی نظام میں ناظمین کے پاس اختیارات تو تھے لیکن انہیں استعمال کرنے کے لیے سازگار ماحول تھا اور نہ ہی فنڈز دستیاب تھے، نئے مجوزہ بلدیاتی نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا بہترین طریقہ کار متعارف کرا رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں منعقدہ نیشنل کانفرنس برائے لوکل گورنمنٹ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

کانفرنس میں پورے ملک سے ضلع اور تحصیل ناظمین و چیئرمین شریک تھے جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی، وفاقی و صوبائی وزراء نے بھی کانفرنس میں شرکت کی اور شرکاء سے خطاب ہوئے بہتر لوکل باڈیز سسٹم کے قیام کے لئے اپنی تجاویز پیش کیں۔

مقررین کی جانب سے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام کو بہترین اور دوسرے صوبوں کے لیے ماڈل قرار دیا گیا۔خیبر پختونخوا کے وزیر بلدیات شہرام خان ترکئی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں ایک ویلیج یا نیبر ہوڈ کونسل کو کم سے کم 25 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 70 لاکھ روپے کے فنڈز دیے جاتے ہیں جو وہ بغیر کسی قدغن کے ہر طرح کے چھوٹے ترقی کاموں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

صوبائی وزیر نے تجویز دی کہ لوکل باڈیز سسٹم کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ فنڈز بھی فراہم کیے جانے چاہئیں تاکہ وہ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو نچلی سطح پر ہی حل کر سکیں، تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ بلدیاتی نظام ہونا چاہیے کیونکہ اس سے جہاں عوامی مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوتے ہیں وہیں ممبران قومی و صوبائی اسمبلی پر بھی بوجھ کم ہوتا ہے اور وہ اپنی توجہ قانون سازی پر مرکوز کر سکتے ہیں۔ شہرام خان ترکئی نے کہا کہ ڈی سنٹر لائزیشن سے نظام مزید بہتر ہوتا ہے، خیبر پختونخوا نئے مجوزہ بلدیاتی نظام میں اختیارات بھی زیادہ ہوں گے اور فنڈز بھی جس عوام کے مسائل نچلی سطح پر ہی حل ہوں گے اور حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔