کوئٹہ، بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار یہاں کے عوامی نمائندے خود ہیں ، جام کمال خان

بلوچستان کی ترقی میں جو بھی کوتاہی ہوئی ہے وہ اپنوں ہی نے کی ہے، عوام نے جنہیں اپنا نمائندہ منتخب کرکے اسملیوں میں بھیجا ،وزیراعلیٰ بلوچستان

جمعرات 14 فروری 2019 22:34

کوئٹہ، بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار یہاں کے عوامی نمائندے خود ہیں ..
کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 فروری2019ء) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کے ذمہ دار یہاں کے عوامی نمائندے خود ہیں اور بلوچستان کی ترقی میں جو بھی کوتاہی ہوئی ہے وہ اپنوں ہی نے کی ہے، عوام نے جنہیں اپنا نمائندہ منتخب کرکے اسملیوں میں بھیجا انہوں نے وسائل کو صحیح استعمال نہیں کیا جہاں کچھ وسائل استعمال ہوئے بھی ہیں تو ان منصوبوں کو ادھورا چھوڑدیا گیا، اگر صحیح طریقہ کار اپنایا جاتا تو عوام کو روزگار، تعلیم، صحت، بجلی اور زراعت جیسی سہولتیں ملتیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں منعقدہ ایک بڑے قبائلی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما صوبائی وزیر صنعت حاجی محمد خان طور اتمانخیل نے کیا تھا، صوبائی وزراء میر ظہور احمد بلیدی، میر ضیاء لانگو، میر نصیب اللہ مری، وزیراعلیٰ کے کوآرڈینیٹر عبدالخالق اچکزئی، سابق صوبائی وزیر سردار درمحمد ناصر اور آئی جی پولیس محسن حسن بٹ بھی اس موقع پر موجود تھے، جبکہ ژوب ڈویژن کے مختلف قبائل کے معتبرین اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے جرگہ میں شرکت کی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ لورالائی جیسے دہشت گردی کے واقعات ہمارے حوصلوں کو کمزور نہیں کرسکتے، بلوچستان کی روایات کے خلاف رونما ہونے والے ایسے واقعات اور انہیں سیاسی رنگ دینا قابل مذمت ہے، بعض عناصر دہشتگردی کے واقعات کی آڑ میں برادر اقوام کو لڑانے کی کوشش کرتے ہیں، عوام نے تو انہیں اقتدار کا موقع دیا اگر انہوں نے عوام کی خدمات کی ہوتی ، انہیں روزگار دیا ہوتا اور ان کی زندگی میں بہتری لائے ہوتے تب بھی انہیں اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ دہشت گردی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کریں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم لورالائی واقعہ میں جانیں قربان کرنے والے اہلکاروں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے لورالائی کو ایک بڑے سانحہ سے بچایا، انہوں نے کہاکہ بلوچستان امن اور شاندار روایت کے حوالے سے مالدار خطہ ہے، یہاں ہر زبان، رنگ اور نسل سے تعلق رکھنی والی اقوام اور لوگ ہمیشہ بہتر انداز میں رہتے آئے ہیں اورجب بھی ملک اور صوبے کے لئے مشکل وقت آیا انہوں نے قربانیاں دی ہیں، یہاں کے لوگوں کے احساس ہے کہ اپنے ملک اور صوبے کے لئے ان سے جو بھی ہوسکا کریں گے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی لسانیت اور فرقہ واریت کو سیاست کے لئے استعمال کیا گیا تاہم اب صوبے کے عوام باشعور ہوچکے ہیں اور انہیں زبان، رنگ، نسل ، مذہب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر سیاسی طور پر ورغلایا نہیں جاسکتا، انہوں نے کہاکہ وسائل کے ہوتے ہوئے بھی بلوچستا ن کے لئے کچھ نہ کرنے والے اب عوام کو مزید بہکا نہیں سکتے، عوام اپنے علاقے کے نمائندوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں صوبے اور علاقے کی ترقی کی ذمہ داری دیتے ہیں، حکومت کا کام یہ نہیں کہ صرف ٹرانسفر پوسٹنگ کرے یاپھر ہوٹلوں میں بیٹھ کر تصویریں کچھواکر سستی شہرت حاصل کرے، معاشرے کی بھلائی عوام کے مستقبل کی بہتری اور وسائل کا صحیح استعمال حکومت کا حقیقی کام ہے، اور اگر ایسا نظام قائم ہوجاتا ہے تو آدھے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج کے دورمیں انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع عوام کو باخبر رکھتے ہیں اور بلوچستان کے عوام باشعور ہورہے ہیں، اب یہ ممکن نہیں کہ چند لوگ اپنے مفادات کے لئے عوامی مفادات کا سوداکریں کیونکہ عوام اب سوال اٹھاتے ہیں جو کہ ان کا حق ہے، انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے تو عوامی پذیرائی ملے گی، اور نہ کرسکے تو عوام سے چھپایا نہیں جاسکے گا۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں مخلوط حکومت قائم ہے جو ایک بہتر نظام کے قیام کے لئے پوری طرح پر عزم ہے ، اللہ تعالیٰ اور عوام نے جو ذمہ داری ہمیں دی ہے ہم اسے پورا کریں گے، ہمارے عمل کمزور ہوسکتے ہیں لیکن ہماری نیت صاف ہے اور اللہ تعالیٰ بھی نیت دیکھتا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ گذشتہ ساڑھے پانچ ماہ کے دوران نظام اور گورننس میں جوبہتری آئی ہے اس میں ہماری محنت شامل ہے جو سب کے سامنے ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ عارضی طور تو چھوٹے موٹے اقدامات کے ذریعہ عوام کو خوش کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارا وژن دوررس نتائج کے حامل اقدامات اور پالیسیاں ہیں جن کے ذریعہ صوبے کی ترقی کی راہ متعین ہوگی، ہم نے عارضی بنیادوں پر قائم نظام کی بہتری کی جانب توجہ دی ہے عوام کی سہولت کے لئے اختیارات، ترقیاتی عمل اور روزگار کی فراہمی کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا عمل جاری ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ وسائل کو عوام کی خواہش اوران کی ضروریات کے مطابق استعمال کیا جائے گا، کیونکہ اپنے علاقے کی بہتری اور ترقی کا فیصلہ عوام ہی بہتر طور پر کرسکتے ہیں، جمہوری نظام کی بنیاد بھی یہی ہے کہ عوام کو اپنی تقدیر کے فیصلے کا اختیار حاصل ہو، وزیراعلیٰ نے کہا کہ رنگ، زبان، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر عوام کو صحت، تعلیم، روزگار، پانی اور تحفظ کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، انہوں نے کہا کہ غربت اور افلاس کی وجہ وسائل کا ضیاع اور نظام کی کمزوری ہے، جب نظام مضبوط ہوگا تو عوامی تکالیف بھی ختم ہوجائیں گی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ جو لوگ برادر اقوام کو آپس میں لڑاتے ہیںعوام ان سے ضرور پوچھیں کہ جب اقتدار ان کے پاس تھا تو انہوں نے عوام کے لئے کیا کیا، اور اگر کچھ بھی نہیں کیا تو ہمیں درس بھی نہ دیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ جو لوگ سیاسی جلسوں میں ایک دوسرے کی تذلیل کرتے رہے آج اسمبلیوں میں مشترکہ قرارداد بھی لاتے ہیں اور شیروشکر بھی ہوتے ہیں جو منافقت کی سیاست ہے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہمیں کچھ لینے کے لئے وفاقی حکومت کے پاس جانا پڑتا تھا لیکن اب وفاقی نمائندے دینے کے لئے خود ہمارے پاس آتے ہیں، پلاننگ کمیشن کی ٹیم گذشتہ ایک ہفتہ سے کوئٹہ میںموجود ہے اور صوبائی حکومت کی مشاورت سے وفاقی پی ایس ڈی پی میں منصوبے ڈالے جارہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے اقتدار کی مختصر مدت میں اہم قانون سازی کی، بلوچستان کی اراضی کے تحفظ کو یقینی بنایا اور اب کوئی بھی غیر ملکی صوبے میں اراضی کا مالک نہیں بن سکتا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس ماہ کے آخر تک تمام خالی اسامیاں مشتہر کی جائیں گی اور ان پر میرٹ کے مطابق بھرتی کی جائے گی، جس علاقے کی اسامی ہوگی اس پر اسی علاقے کے امیدوار کو بھرتی کیا جائے گا، وزیراعلیٰ نے اس موقع پر سپاسنامہ میں پیش کئے گئے مسائل کے حوالے سے یقین دلایاکہ لورالائی کے شہداء کے لواحقین کو حکومتی پالیسی سے بڑھ کر معاوضے دیئے جائیں گے، رسالہ لائن کے متاثرین کو اراضی فراہم کی جائے گی، لیویز فورس میں اضافہ کیا جائے گا، ضرورت کے مطابق نئے تھانے بنائے جائیں گے، قبل ازیں جرگہ کے آغاز پر سانحہ لورالائی کے شہداء کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔