ترکی کی 10بکتر بند فوجی گاڑیاں شام کے صوبہ ادلب میں داخل

گاڑیوں کے ساتھ کم از کم 50 ترک فوجی اہل کار شام میں داخل ہوئے،زمینی ذرائع

منگل 19 مارچ 2019 16:22

ترکی کی 10بکتر بند فوجی گاڑیاں شام کے صوبہ ادلب میں داخل
دمشق(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مارچ2019ء) ترکی کی دس بکتر بند فوجی گاڑیاں شام کے صوبے ادلب میں داخل ہوگئیں، زمینی ذرائع نے عرب ٹی وی کو بتایاکہ ان گاڑیوں کے ساتھ کم از کم 50 ترک فوجی اہل کار شام میں داخل ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ترکی کے گشتی دستوں کے ہمراہ ایک شامی مسلح اپوزیشن گروپ فیلق الشام کے عناصر تھے۔ یہ گروپ نیشنل لبریشن فرنٹ کا حلیف ہے جس کو انقرہ کی جانب سے عسکری اور لوجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔

یہ بکتر بند گاڑیاں شامی اراضی کے اندر داخل ہونے کے بعد ادلب کے مغربی دیہی علاقے میں جسر الشغور قصبے کی جانب چلی گئیں۔ ان میں سے بعض گاڑیاں جسر الشغور کے نواحی گاؤں اشتبرق میں ٹھہر گئیں۔بعد ازاں ترکی کا ایک اور فوجی قافلہ حلب اور دمشق کے درمیان راستے پر واقع شہر خان شیخون پہنچ گیا۔

(جاری ہے)

اس قافلے نے ہیر کو صبح صادق تک شہر میں گشت کیا۔ترکی کا ایک اور فوجی قافلہ یفر لوسین کی غیر قانونی گزر گاہ کے راستے ادلب کے شمالی دیہی علاقے میں داخل ہوا۔

یہ پہلا موقع ہے جب انقرہ کے عسکری گشتی دستے سرکاری طور پر اپنے فوجیوں اور تمام ساز و سامان کے ساتھ ادلب صوبے کے اندر تک گھوم رہے ہیں۔ اس سے قبل یہ دستے ترکی اور شام کی سرحد پر محدود رہتے تھے۔انقرہ کے حمایت یافتہ شامی اپوزیشن کے گروپ اس معاملے کو ایک عام اقدام کے طور پر پیش کرنے اور اسے ادلب کے دیہی علاقوں میں ترکی کی نگراں چوکیوں اور اس کے مشن کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شام میں نیشنل لبریشن فرنٹ کے سرکاری ترجمان کرنل ناجی مصطفی نے عرب ٹی وی کو ٹیلیفونک گفتگو میں بتایا کہ ترکی کے فوجی گشتی دستوں کا ادلب کے اندر تک داخل ہو جانا دراصل سوچی معاہدے کی ایک پرانی شق کا اطلاق ہے جس پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوا تھا اور اب ترکی کی جانب سے اس کا اطلاق عمل میں آ رہا ہے۔ادھر باخبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ انقرہ ان گشتی دستوں کے ذریعے روس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تا کہ مزید رعائتیں حاصل کر سکے۔

اس سے قبل ماسکو نے حلب اور دمشق کے درمیان بین الاقوامی روٹ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اصرار کیا تھا۔ادلب سے تعلق رکھنے والے شامی صحافی حازم داکل اس تمام صورت حال کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی کی بکتر بند گاڑیوں کا اس طرح اعلانیہ طور پر ادلب کے کافی اندر تک داخل ہونے کا مقصد اس خیر مقدم کی تصویر کو پیش کرنا ہے جو اس علاقے کے بعض مقامی لوگوں کی جانب سے سامنے آ رہا ہے تا کہ بعد ازاں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

داکل نے بتایا کہ اس خیر مقدم نے ہمیں کریمیا میں روس کی کارروائی کی یاد دلا دی ہے جب اس نے کریمیا کو روس سے علاحدہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہاں بھی لوگوں نے روسی فوجیوں کا اسی طرح استقبال کیا تھا جیسا کہ آج بعض شامی شہری ترک فوجیوں کا استقبال ادلب کے فاتح کے طور پر کر رہے ہیں۔داکل کے مطابق ادلب کے دیہی علاقے میں ترکی کی چوکیوں کا مقصد بم باری روکنا یا سوچی معاہدے کی کامیابی کو یقینی بنانا نہیں بلکہ اپوزیشن گروپوں کی فورسز کو بشار حکومت اور اس کے حلیف روس کے خلاف حملوں سے روکنا ہے ،،، اور ترکی اس معاملے میں 100% کامیاب رہا ہے۔

ترکی کے فوجی دستے بشار حکومت کو حماہ کے دیہات اور قصبوں پر بھاری گولہ باری سے نہیں روک رہے۔ اس گولہ باری کی لپیٹ میں مورک قصبہ بھی آیا جہاں درجنوں ترک فوجی تعینات ہیں۔انقرہ اور ماسکو کے درمیان 17 ستمبر کو طے پانے والے سوچی معاہدے کے بعد سے ترکی فوجی ادلب کے دیہی علاقوں میں 12 چوکیوں میں تقسیم ہیں جب کہ اس کے مقابل روسی فوج کی صرف 10 چوکیاں ہیں۔