حکومت کا وزیرستان آپریشن سےمتعلق بی بی سی کی جھوٹی خبرپرایکشن

بی بی سی19 صفحات پر مشتمل ڈوزیئر بھجوا دیا، خبر میں انسانی حقوق کی خفیہ خلاف ورزیوں سے متعلق سنگین الزام لگایا گیا، بی بی سی ذمہ داروں کے خلاف کاروائی اورمعافی مانگ کر متعلقہ خبر اپنی ویب سائٹ سے ہٹائے، ورنہ قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔وزارت اطلاعات کا ڈوزیئر

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 18 جون 2019 16:29

حکومت کا وزیرستان آپریشن سےمتعلق بی بی سی کی جھوٹی خبرپرایکشن
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔18 جون 2019ء) وفاقی وزارت اطلاعات ونشریات نے وزیرستان آپریشن پر بی بی سی کی جھوٹی خبر کا ایکشن لے لیا، وزارت اطلاعات نے 19صفحات پر مشتمل ڈوزیئر بھجوادیا، خبر میں انسانی حقوق کی خفیہ خلاف ورزیوں سے متعلق الزام لگایا گیا، بی بی سی ذمہ داروں کے خلاف کاروائی اورمعافی مانگ کر متعلقہ خبر اپنی ویب سائٹ سے ہٹائے، ورنہ قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت پاکستان نے بی بی سی سے بے بنیاد اور یکطرفہ خبروں پر باضابطہ احتجاج کیا ہے۔ وزارت اطلاعات کی جانب سے 2جون کی خبر پر ڈوزیئر بی بی سی کے نمائندے کے حوالے کیا گیا۔ وزارت اطلاعات ونشریات کا ڈوزیئر 19 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ڈوزیئر بی بی سی کو پاکستان میں انسانی حقوق کی خفیہ خلاف ورزیوں سے متعلق الزام پربھیجا گیا۔

(جاری ہے)

ڈوزیئر میں کہا گیا کہ 2 جون کو شائع ہونے والی خبر صحافتی اقدار کے خلاف تھی۔خبر میں فریقین کا مئوقف کا نہیں لیا گیا جو بی بی سی کی ادارتی پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔ بغیر ثبوت خبر شائع کرکے ریاست پاکستان پر سنگین الزام تراشی کی گئی۔ بی بی کی خبر میں تجزیئے سے واضح ہوتا ہے کہ خبر میں جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا۔ خبر میں حتمی نتائج اخذ کرنا غیرجانبداری اور معروضی صحافت کے خلاف ہے۔

ڈوزیئر میں بتایا گیا کہ خبر شائع کرنے والے رپورٹر نے وزیرستان جانے کی درخواست نہیں دی۔ حکومت پاکستان کو امید ہے کہ خبر کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ حکو مت پاکستان نے بی بی سی سے مطالبہ کیا کہ بی بی سی معافی مانگ کر متعلقہ خبر اپنی ویب سائٹ سے ہٹائے، پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ بی بی سی پاکستان مخالف یکطرفہ خبروں سے اجتناب کرے گا۔

وزارت اطلاعات نے کہا کہ اگر ذمہ داروں کے خلاف ایکشن نہ لیا گیا تو پاکستان اور برطانیہ میں قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ وفاقی وزارت اطلاعات ونشریات نے کہا کہ ڈوزیئر کے ساتھ صحافی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے تراشے بھی منسلک کیے گئے۔خبر کا تفصیلی تجزیہ علیحدہ مراسلے میں ارسال کیا جارہا ہے۔ احتجاجی مراسلہ برطانیہ میں میڈیا کے ریگولیٹری ادارے کو بھجوایا جائے گا۔