پاکستان گزشتہ 15 سالوں میں گنے کی پیداوار میں صرف اعشاریہ 5 فیصد اور شوگر ریکوری میں 2 فیصد اضافہ کر سکا ہے، کماد کی جدید اقسام کو فروغ دے کر پیداوار میں اضافہ کیاجا سکتاہے، ماہرین زراعت

بدھ 19 جون 2019 13:58

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 جون2019ء) پاکستان گزشتہ 15 سالوں میں گنے کی پیداوار میں صرف اعشاریہ پانچ فیصد اور شوگر ریکوری میں 2 فیصد اضافہ کر سکا ہے لہٰذا کماد کی جدید اقسام کو فروغ دے کر پیداوار میں اضافہ کیاجاسکتاہے۔ ماہرین زراعت نے بتایاکہ پاکستان کماد کی کاشت کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہونے کے باوجود فی ایکڑ پیداوار اور شوگر ریکوری میں بہت پیچھے ہے جس کیلئے خصوصی اقدامات کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ زرعی مداخل سستاکرنے اور تمام وسائل سے استفادہ کی ضرورت ہے۔

انہوںنے کہاکہ ایسے پروگرام صرف اسی صورت ہی سودمند ہیںجب ہم ان سے حاصل ہونیوالی قیمتی معلومات، تجربات اور نتائج کسانوں تک پہنچائیںکیونکہ اگر فارمرز کی پیداوار بڑھے گی تو اس سے سب کو فائدہ ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ فصلوں کی روایتی پیداوار پر اکتفا کر لینا درست نہ ہے لہٰذا ہمیں مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کوئی بھی ہو بُری نہیں ہوتی تاہم اپنے وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ٹیکنالوجی استعمال کر لی جائے اس کا مقصد فی ایکڑ پیداوار کا زیادہ سے زیادہ حصول ہونا چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ اگر ہم ایک ایکڑ میں کماد کے 70ہزار پودے لگائیں تو پیداوار آٹھ سو من سے کم بالکل نہیں آئیگی۔ انہوںنے کہاکہ کسانوں کیلئے سہولیات و رہنمائی کی کمی فرٹیلائزر، مشینری، ڈیزل، بجلی وغیرہ کی مہنگائی اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل پیداوار میں کمی کی وجہ ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ پندرہ سالوں میں گنا کی پیداوار میں اعشاریہ پانچ فیصد اور شوگر ریکوری میں صرف دو فیصد تک اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیداوار میں اضافہ کماد کی جدید ورائٹیز کو فروغ دیکر ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہوںنے تجویز پیش کی کہ شوگر ملوں کے فاضل میٹریل کو فصلوں کی ذرخیزی کیلئے استعمال میں لایا جانا چاہیے کیونکہ کمپوسٹ مڈ سے نامیاتی مادے کی کمی بھی دور کی جا سکتی ہے۔