متبادل کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی نے دورہ پاکستان سے انکار کرنے والے 10 سینئر کھلاڑیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی

جنہیں موقع ملا انہوں نے اپنی افادیت ثابت کردی ہے: سری لنکن کرکٹ بورڈ سیکرٹری موہن ڈی سلوا

Usman Khadim Kamboh عثمان خادم کمبوہ ہفتہ 12 اکتوبر 2019 22:23

متبادل کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی نے دورہ پاکستان سے انکار کرنے والے ..
لاہور (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔12اکتوبر 2019ء) متبادل کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی نے دورہ پاکستان سے انکار کرنے والے 10 سینئر کھلاڑیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا دورہ کرنے والے سری لنکن کھلاڑیوں پر ڈالرز کی بارش کر دی گئی ہے، پاکستان کا دورہ کرنے والی سری لنکن ٹیم کے ٹی 20 کپتان داسون شناکا نے عبوری ہیڈ کوچ رمیش رتنائیکے، ون ڈے کپتان لاہیرو تھریمانے، چیف سلیکٹر و منیجر اشانتھا ڈی میل کے ہمراہ بورڈ کے صدر شامی سلوا کو ٹرافی پیش کی جبکہ اس موقع پر ٹیم کیلئے انعامات کا بھی بتایا گیا۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کا دورہ کرنے والے سری لنکن کھلاڑیوں کو مجموعی طور پر ایک لاکھ 45 ہزار ڈالر دئیے جائیں گے جو سب میں برابر تقسیم ہوں گے۔سری لنکن کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری موہن ڈی سلوا نے کہا کہ سیکیورٹی انتظامات چیک کرنے کیلئے میں خود پاکستان گیا تھا، سینئرز کی جانب سے انکار کے بعد کھلاڑیوں کو قائل کرنا آسان نہیں تھا تاہم اس بات کی بہت خوشی ہے کہ جنہیں موقع ملا انہوں نے اپنی افادیت ثابت کردی ہے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ سری لنکن ٹیم کے کپتان نے واضح کردیا ہےعالمی نمبر ایک کو شکست دینے والی ٹیم سری لنکا کی بی ٹیم نہیں ہے۔ سری لنکن اوپننگ بیٹسمین دنوشکا گوناتھیلاکا نے واضح کیا ہے کہ آئی لینڈرز کو سیکنڈ سٹرنگ ٹیم کہنا درست نہیں کیونکہ اس نے عالمی نمبر ایک ٹیم پاکستان کیخلاف وائٹ واش کامیابی یقینی بنائی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آنے والی ٹیم سیکنڈ الیون نہیں تھی بلکہ اس میں کچھ اہم کھلاڑی شامل نہیں ہوسکے۔

دنوشکا گوناتھیلاکا کے مطابق کوسال پریرا انجری سے دوچار تھے جبکہ انجیلو میتھیوز کو گزشتہ ٹی ٹونٹی سکواڈ میں بھی جگہ نہیں ملی تھی اور اگر ٹی ٹونٹی ٹیم کی بات کی جائے تو صرف لاستھ مالنگا اور نروشن ڈکویلا پاکستان نہیں آسکے اور اس اعتبار سے اسے ”بی“ٹیم کہنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سری لنکن کرکٹ بورڈ نے انہیں مکمل آزادی دی اور پچیس سے تیس کھلاڑیوں کو یکجا کر کے پوچھا گیا کہ کیا وہ دورے پر جانا چاہتے ہیں جنہوں نے کسی دباؤ کے بغیر اقرار یا انکار کیا اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان کے فیصلے کا احترام کیا گیا۔