سارک ممالک کو تجارت کے فروغ کیلئے نان ٹیرف رکاوٹوں کے خاتمہ اور بزنس ٹو بزنس روابط بڑھانے پر توجہ دینا ہوگی‘ افتخار علی ملک

جنوبی ایشیا میں علاقائی تجارت کی مجموعی صلاحیت کے 55 فیصد پوٹینشل کو پوری طرح سے استعمال میں نہیں لایا گیا‘سینئر نائب صدر سارک چیمبر

اتوار 20 اکتوبر 2019 13:00

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اکتوبر2019ء) سارک چیمبر نے خطے میں معاشی انضمام کیلئے دستیاب تمام تجارتی مواقع اور سرمایہ کاری کی صلاحیتوں اور اس کے سٹریٹجک جغرافیائی محل وقوع سے مکمل استفادہ کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے۔ سارک چیمبر کی ایگزیکٹو کمیٹی کے 78 ویں اجلاس کی اختتامی نشست سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وفد کے سربراہ اور سارک چیمبر کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے کہا کہ سارک ممالک کو تجارت کے فروغ کیلئے نان ٹیرف رکاوٹوں (این ٹی بی) کے خاتمہ اور بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی) روابط کو بڑھانے پر توجہ دینا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ سارک خطہ میں تجارت اور سرمایہ کاری کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے اور یہ دنیا کی 21 فیصد آبادی کا مسکن ہے لیکن یہ ابھی تک دنیا کے سب سے کم مربوط علاقائی بلاکس میں سے ایک ہے جس کی علاقائی تجارت کا عالمی تجارت میں حصہ صرف 5 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابل نافا کا حصہ 51 فیصد اور آسیان کا حصہ 25 فیصد ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی تجارت کی مجموعی صلاحیت کے 55 فیصد پوٹینشل کو ابھی تک پوری طرح سے استعمال میں ہی نہیں لایا گیا۔

ٹیکنالوجی کی منتقلی اور تحقیق و ترقی کے تبادلے کے مشترکہ وژن کے ذریعہ ہی اس صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سارک ممالک کے مابین پیچیدہ حفاظتی اقدامات اور نان ٹیرف رکاوٹوں کی وجہ سے سافٹا ( سائوتھ ایشیا فری ٹریڈ ایگریمنٹ ) بھی توقعات کے مطابق سودمند ثابت نہیں ہو سکا۔نافتخار ملک نے کہا کہ تمام 8 رکن ممالک کی سرکردہ کاروباری شخصیات کا خیال ہے کہ کاروباری برادری کے مابین قریبی تعاون علاقائی انضمام کیلئے لازمی ہے اور اسی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا مفاد ہے۔

سارک چیمبر کا مقصد بھی جنوبی ایشیا میں کاروباری آسانیاں پیدا کرنا اور خطے کے علاوہ باہر کے سرمایہ کاروں کو سارک ممالک میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا ہے۔ ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح ہی ہم نوجوانوں کے لئے نئی ملازمتوں کی تخلیق اور غربت کے خاتمہ جیسے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے جنوبی ایشیا کی لیڈرشپ کو اپنی موجودہ سوچ سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنا ہونگے اور انہیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ وہ دنیا کے غریب ترین ممالک کے حکمران ہیں اور خطے کو غربت سے نجات دلانا ہی ان کا مشن ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی بدامنی دنیا بھرکا مسئلہ ہے لہذا بزنس کمیونٹی کو اس سے آگے بڑھتے ہوئے اور غیر متوازن سیاسی حالات سے ہٹ کر کوششیں کرنا ہونگی۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ رکاوٹوں کے باوجود سارک چیمبر خطے میں کاروباری ماحول کو فروغ دینے کے لئے سرگرم عمل ہے اور اس کے اس کردار کو ناقدین نے بھی سراہا ہے۔ عالمی معیشت میں جنوبی ایشیا کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روآن ایدیریسنگھے کی متحرک قیادت میں سارک چیمبر نے تجارت ، مالیات ، غربت کے خاتمے ، انسانی وسائل کی ترقی ، خواتین کو بااختیار بنانے ، بچوں کی بہبود ، دیہی ترقی ، انسداد دہشت گردی ، انسداد منشیات اور ماحولیات سمیت متعدد شعبوں میں قابل ذکر پیشرفت کی ہے۔

ایف پی سی سی آئی کے صدر دارو خان اچکزئی ، حمید اختر چڈھا ، زبیر ملک ، سیکرٹری جنرل حنا سعید اور ڈپٹی سکریٹری ذوالفقار بٹ کے علاوہ نیپال، افغانستان، سری لنکا، بنگلہ دیش سے اعلی سطح کے مندوبین اور دیگر ممبران نے اس اجلاس میں شرکت کی۔