دنیاکو بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے، حجم اور نوعیت کے اعتبار سے مسائل سے کسی ایک ملک کیلئے تنہاء نمٹنا ممکن نہیں،وزیر خارجہ

ہمیں مستقبل کی سمت اور طریقہ کار وضع کرتے ہوئے مشاورتی کونسل اور سٹیئرنگ کمیٹی کے قواعد اور کردار متعین کرنے میں نہایت احتیاط اور ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا،ہمیں اپنی سیاسی وسفارتی گنجائش لازما بڑھانا ہوگی ، ہمیں امید ہے کہ سماجی وسیاسی اور ثقافتی ترقی میں تجربہ، مہارت، علم اور وسائل ہماری مدد کریں گے، ایک پرامن اور محفوظ ماحول یقینی بناتے ہوئے جس کا محرک تخلیق اور ٹیکنالوجی بنے گی، شاہ محمود قریشی کا خطاب

منگل 3 دسمبر 2019 15:50

دو حہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 دسمبر2019ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دنیاکو بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے، حجم اور نوعیت کے اعتبار سے مسائل سے کسی ایک ملک کیلئے تنہاء نمٹنا ممکن نہیں،ہمیں مستقبل کی سمت اور طریقہ کار وضع کرتے ہوئے مشاورتی کونسل اور سٹیئرنگ کمیٹی کے قواعد اور کردار متعین کرنے میں نہایت احتیاط اور ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا،ہمیں اپنی سیاسی وسفارتی گنجائش لازما بڑھانا ہوگی ، ہمیں امید ہے کہ سماجی وسیاسی اور ثقافتی ترقی میں تجربہ، مہارت، علم اور وسائل ہماری مدد کریں گے، ایک پرامن اور محفوظ ماحول یقینی بناتے ہوئے جس کا محرک تخلیق اور ٹیکنالوجی بنے گی۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے دوسرے کے ایل سمٹ وزارتی اجلاس( دوحہ ،قطر) سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دوحہ جیسے خوبصورت شہر میں آپ سب دوستوں کے ساتھ یہاں موجودگی میرے لئے باعث عزت و اعزاز ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ شاندار میزبانی پر قطر کے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ شیخ محمد عبدالرحمن بن جاسم الثانی کے شکرگزار ہیں،مہمان نوازی ہمیشہ سے ہی قطر کا ایک روایتی امتیاز رہا ہے۔

انہوںنے کہاکہ یہ اجتماع ہمیں نادر موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم کے ایل سمٹ کے انعقاد سے قبل باہمی تعاون اور اشتراک_ عمل کے شعبہ جات پر مزید غور وخوض کریں۔ انہوںنے کہاکہ کے ایل سمٹ پر پہلی غیررسمی وزارتی مشاورت 4 تا 5 نومبر کو کوالالمپور میں منعقد ہوئی جو بے حد مفید رہی۔ اس مشاورت کے نتیجے میں کے ایل سمٹ کے عمل کو واضح کرنے اور ہر ملک کی توقعات اور تجاویز سے سیکھنے کا موقع ملا۔

پاکستان نے اس تناظر میں تعاون کے امکانی شعبہ جات پر دستاویز پیش کی تھی۔ انہوںنے کہاکہ کے ایل سمٹ کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے تعاون کے لئے موجودہ تجاویز پرہم کام کررہے ہیں اورہم نے تجارت، سیاحت، اسلامی بنکاری، خوراک کے تحفظ، اعلی تعلیم، سائنس وٹیکنالوجی اور خواتین کو بااختیار بنانے کے شعبوں میں تعاون کی تجویز بھی دی ہے۔ انہوںنے کہاکہ آج دنیاکو بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔

حجم اور نوعیت کے اعتبار سے یہ مسائل اتنے بڑے ہیں کہ کسی ایک ملک کیلئے تنہاء ان سے نمٹنا ممکن نہیں۔ انہوںنے کہاکہ حکمرانی، ترقی، ماحولیاتی تبدیلی، دہشت گردی اور اسلام سے خوف جیسے مسائل متقاضی ہیں کہ ان سے نمٹنے کے لئے اجتماعی اور مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے۔ انہوںنے کہاکہ مجھے پوری امید ہے کہ کے ایل سمٹ درپیش مسائل ومشکلات سے موثر انداز میں نمٹنے اوران سے مقابلے کے راستے کھولنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

انہوںنے کہاکہ اکیسویں صدی میں عالمگیریت تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اسلامی دنیا کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ اس راستے پر احتیاط سے چلے۔ ہمیں نہ صرف یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم پیچھے نہ رہ جائیں بلکہ اپنی منفرد تہذیبی شناخت، ثقافتی وجود اور قومی خودمختاری کو بھی ہمیں محفوظ بنانا ہے۔ انہوںنے کہاکہ کے ایل سمٹ میں شامل ممالک کے ساتھ پاکستان کے گہرے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی روابط استوار ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہم اس کلیدی پلیٹ فارم کے ذریعے ان تعلقات کو مزید گہرا اور پختہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوںنے کہاکہ انڈونیشیا ، ملائیشیا ، پاکستان، قطر, ایران اور ترکی اجتماعی طورپر کل جی ڈی پی کا 50 فیصد بنتے ہیں جبکہ قومی گیس کی پیداوار کا 37 فیصد، آبادی کا 37 فیصد اور اسلامی دنیا کا کل رقبہ 18 فیصد بنتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ہم سب سمندرکنارے آباد اقوام ہیں جو دنیا کے اہم بحری سٹرٹیجک مقامات پر واقع ہیں۔

ان میں آبنائے ملاکا، خلیج عمان، آبنائے ہورمز اور باسفورس شامل ہیں۔ ہم پرامید ہیں کہ اس بے پناہ صلاحیت کو اجتماعی ترقی اور خوشحالی کے لئے بروئے کار لایا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ کے ایل سمٹ کے سات شعبہ جات کی پاکستان مکمل حمایت کرتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں امید ہے کہ سماجی وسیاسی اور ثقافتی ترقی میں تجربہ، مہارت، علم اور وسائل ہماری مدد کریں گے، ایک پرامن اور محفوظ ماحول یقینی بناتے ہوئے جس کا محرک تخلیق اور ٹیکنالوجی بنے گی اور جس میں ںساکھ کاحامل اعلی معیار، اچھی حکمرانی، تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور ہمارے عوام خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار ہوں گے۔

انہوںنے کہاکہ ہمیں اپنے نوجوانوں کے لئے حصول علم پر مبنی کلچر تشکیل دینا ہوگا جو ہمارا مستقبل اور ہر شعبہ میں ہماری قیادت ہیں۔انہوںنے کہاکہ کے ایل سمٹ یا جسے ہم بعد میں ’’تہذیبوں کے لئے پردانہ ڈائیلاگ‘‘ کے نام سے پکاریں گے، کے مستقبل کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے ہمیں اسلامی دنیا کے اندر اور باہر اپنے شراکت داروں کے نکتہ نگاہ اور سوچ کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔

انہوںنے کہاکہ وزیراعظم مہاتیر محمد نے بجا طورپر فرمایا ہے کہ ہم کسی موجودہ تنظیم کو چیلنج کرنے کے لئے یہاں موجود نہیں ہیں اورنہ ہی ہمارا تعاون کسی تیسرے فریق کے خلاف ہے۔ اس نکتے کو مسلسل سمجھاتے رہنا نہایت اہم ہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کے ایل سمٹ عمل کے بارے میں کوئی غلط فہمی یا ناسمجھی ہماری مخلصانہ اور نیک نیتی پر مبنی کوششوں کے لئے ناسازگار ہے۔

انہوںنے کہاکہ ہمیں اپنی سیاسی وسفارتی گنجائش لازما بڑھانا ہوگی جس سے باہمی مفاد پر مبنی تعاون میں اضافہ ہو اور اس کے ذریعے ہمارے درمیان سماجی ومعاشی ترقی کو فروغ ملے۔ اس طرح ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ اپنے لئے متعین کردہ اہداف کو حاصل کرسکیں اور وزیراعظم مہاتیر محمد کے شاندار اقدام کو آگے لے جاسکیں۔ انہوںنے کہاکہ یہ اجاگر کرتے رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ، کے ایل سمٹ کی ہئیت اور ڈھانچہ آنے والے وقت میں نشوونما پاتا رہے گا۔

’’پردانہ ڈائیلاگ‘‘ سوچ وبچارکی بیٹھک (تھنک ٹینک) یا محض بات چیت کا فورم ہی نہیں ہوگا بلکہ تعاون کے لئے ٹھوس منصوبے شروع کرنے کا بھی باعث بنے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس میں حکومتی ذمہ داران کی شرکت درکار ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں مستقبل کی سمت اور طریقہ کار وضع کرتے ہوئے مشاورتی کونسل اور سٹیئرنگ کمیٹی کے قواعد اور کردار متعین کرنے میں نہایت احتیاط اور ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

انہوںنے کہاکہ ہمیں تمام شریک ممالک کے لئے اس احساس کو یقینی بنانا چاہئے کہ یہ فورم ان کا اپنا ہے اور انہیں اپنے خیالات کے اظہار کی یکساں آزادی میسر ہے اور وہ اس ڈھانچے میں مختلف موضوعات پر بھرپور شرکت کرسکتے ہیں۔ملائیشیاء کی طرف سے جاری کردہ سربراہی بیان کا مسودہ ہم نے دیکھا ہے۔ ہم اس کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے عمومی نکات سے اتفاق کرتے ہیں۔

ہم نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں اور ہماری دانست میں ان سے ٹھوس مشاورت کو یقینی بنانے میں مددملے گی اور ثمرآور تعاون کی راہ ہموار ہوگی۔ ہم مستقبل کی راہ عمل کو مزید روشن بنانے کے لئے منتظر ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تشکیل کے اس مرحلے پر تنظیمی اور تصوراتی امور نہایت اہمیت رکھتے ہیں تاکہ اس عمل کو قبولیت عام اور دوام حاصل ہوسکے۔